بھارتی وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اپنی خاموشی پر حزبِ اختلاف کے جارحانہ حملوں کے پسِ منظر میں بدھ کے روز اپنی رہائش گاہ پر ملک کے سینئر صحافیوں سے ملاقات کی، جِس میں اُنھوں نے اِس بات کو سختی سے مسترد کیا کہ وہ ایک کمزور یا کٹھ پتلی وزیرِ اعظم ہیں اور رموٹ کنٹرول سے چلائے جاتے ہیں۔
اُنھوں نے اِسےحزبِ اختلاف کا ایک پرپیگنڈہ قرار دیا اور کہا کہ کانگریس پارٹی نے اُنھیں وزیرِ اعظم مقرر کیا ہے اور اِس سلسلے میں پارٹی میں کوئی اختلافِ رائے نہیں ہے۔
وزیرِ اعظم نے بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے لوک پال کے سوال پر کہا کہ وہ اِس کے لیے تیار ہیں کہ وزیرِ اعظم کو اِس کے دائرے میں لایا جائے۔
تقریباً دو گھنٹے کی اِس ملاقات میں من موہن سنگھ نے زور دے کر کہا کہ ہم لوک پال پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے۔
راہول گاندھی کو وزیرِ اعظم بنائے جانے کے سوال پر اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن حکمراں پارٹی میں اِس سلسلے میں کوئی بات چیت نہیں چل رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ نوجوان قیادت کے خلاف نہیں ہیں، لیکن اِس بارے میں وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔من موہن سنگھ نے یہ بھی کہا کہ اُنھیں سونیا گاندھی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے اور اگر وہاں جمہوریت قائم رہتی ہے تو یہ اُس کے مفاد میں ہے۔