" خود سے 14 سال بڑے شخص سے شادی کر لو ورنہ تمہارے باپ اور بھائی کو مار دیں گے۔"
یہ دھمکی بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ کی ایک 14 سالہ لڑکی کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گئی کیونکہ کیمپ پر وارد ایک مسلح گروپ کے رکن نے اس کے باپ اور بھائی کو پکڑ لیا تھا اور انہیں تب چھوڑا جب اس نے پہلے سے شادی شدہ اس 28 سالہ شخص سے شادی کے لیے ہاں کردی اور اب دو سال سے مستقل تشدد سہنا اس کا مقدر ہے۔
بنگلہ دیش میں کیمپوں میں مقیم روہنگیا پناہ گزین جن بے شمار مسائل کا شکار ہیں، ان میں سے یہ صرف ایک ہے جو انسانی حقوق کی تنظیم ہیومین رائٹس واچ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بیان کیا۔
بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کی بحالی اور وطن واپسی کے کمشنر میزان الرحمان نے کہا ہے کہ بین الاقوامی تنظیمیں روہنگیا پناہ گزینوں کو قانونی مدد فراہم کر رہی ہیں چنانچہ حکومت نظامِ انصاف تک رسائی میں رکاوٹ پیدا نہیں کر رہی۔
میزان الرحمان نے وائس آف امریکہ سے یہ بات ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ پر اپنے ردِ عمل میں کہی۔
ہیومین رائٹس واچ نے بدھ کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے حکام, مسلح گروپوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے بڑھتے ہوئے تشدد سے روہنگیا پناہ گزینوں کی خاطر خواہ حفاظت میں ناکام رہے ہیں کیونکہ پولیس اور قانونی اور طبی امداد تک رسائی میں کئی سطح پر رکاوٹیں موجود ہیں۔
میزان الرحمان نے کہا،" گزشتہ چھ سال کے دوران جو کل 150 افراد مارے گئے ان کے قتل کے مقدمات درج ہو چکے ہیں، بعض میں سزا بھی سنائی جا چکی ہے اور حکومت کو انصاف یقینی بنانے سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ "
ہیومین رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکام روہنگیا لیڈروں کو مخبروں کا کام کرنے پر مجبور کرتے رہے ہیں جو انہیں شدید خطرات میں ڈالتا ہے اور انہیں کوئی تحفظ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
ہیومین رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں روہنگیا کے خلاف تشدد کے 26 واقعات کا اندراج کیا ہے جن میں قتل، اغوا، ایذا رسانی، آبرو ریزی، جنسی حملے اور زبردستی شادی کے واقعات شامل ہیں جن میں جنوری سے اپریل 2023 تک 45 روہنگیا پناہ گزینوں کو انٹرویو کیا گیا اور پولیس اور میڈیکل رپورٹس سے شہادت حاصل کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق متاثرین کا کہنا ہے کہ پولیس اور قانونی اور طبی امداد تک رسائی میں کئی رکاوٹیں ہیں اور حکام ان کے تحفظ، ان کی حفاظت کا انتظام بہتر بنانے اور ذمے داروں کے خلاف قانونی کارروائی میں ناکام رہے ہیں۔
ہیومین رائٹس واچ میں ایشیا کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر مناکشی گنگولی کہتی ہیں،" روہنگیا پناہ گزینوں کی حفاظت کے لیے وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے ماضی میں کیے گئے وعدے , پر تشدد گروپوں اور بے نیاز نظامِ انصاف کی وجہ سے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔"
انہوں نے کہا، روہنگیا کو ان کے ملک واپس بھیجنے کے بنگلہ دیشی حکام کے تیزی سے سامنے آنے والے عزائم کے باوجود حکومت ان کے تحفظ کو یقینی بنانے سے بری الزمہ نہیں ہو سکتی۔
بنگلہ دیشی حکام نے کہا ہے کہ 2022 میں مسلح گروپوں نے 40 سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینون کو ہلاک کیا جبکہ 2023کے پہلے چھ ماہ میں کم از کم 48 روہنگیا مارے گئے۔ روہنگیا کہتے ہیں کہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 6 اور7 جولائی کو تین واقعات میں 7 پناہ گزین مار دیے گئے جن میں ایک سب ماجھی بھی تھا جو کیمپ کے مکینوں کے لیڈر سمجھے جاتے ہیں۔
مرنے والوں میں زیادہ تر ماجھی ہیں یا ان کے اہلِ خانہ۔ رپورٹ کے مطابق بہت سے روہنگیا کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا اور انہیں دھمکیاں یا ایذائیں دی گئیں۔ کئی روہنگیا نے بتایا کہ مسلح گروپ جنسی حملوں، زبردستی شادیوں اور بچوں سے مشقت جیسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
پناہ گزین ایک ایسا ماحول بیان کرتے ہیں جہاں بڑھتی ہوئی سفاکی اور خوف ہے اور جہاں جرائم پیشہ گروہوں اوراسلامی مسلح گروپوں سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والوں کا نشانہ بننے کی بڑھتی ہوئی تشویش لرزہ طاری کیے رکھتی ہے۔
ہیومین رائٹس واچ سے بات کرتے ہوئے ایک روہنگیا پناہ گزین کا کہنا تھا،" ہر رات ہم گولیاں چلنے کی آواز سنتے ہیں، فائرنگ شروع ہوتی ہے تو ہم ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں۔۔۔خوف ہوتا ہے کہ اگلی باری ہماری ہے۔"
ان حملوں کے متاثرین بہت سے مسلح گروپوں کو ذمے دار ٹھراتے ہیں۔ان میں اراکان روہنگیا سالویشن آرمی یا اے آر ایس اے اور روہنگیا سولیڈیریٹی آرگنائزیشن یا آر ایس او، منا گینگ، اسلامی محاذ اور کئی دیگر گروپ شامل ہیں ۔
بنگلہ دیش کی وزارتِ دفاع کے مطابق کم از کم گیارہ مسلح گروپ ان کیمپوں میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ بہت سے جرائم پیشہ گروہ منشیات اور انسانوں کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ان میں کیمپوں پرکنٹرول حاصل کرنے کی لڑائی بھی جاری رہتی ہے اور اس کے درمیان آکر پناہ گزین پھنس جاتے ہیں۔
سر گرم کارکن، تعلیم یافتہ لوگ اور ماجھی عام ہدف ہیں جس سے روہنگیا برادری میں خوف کی سرد لہر دوڑ جاتی ہے۔ 2023کے پہلے چھ ماہ میں 16 ماجھی مارے جا چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پناہ گزینوں کے لیے انصاف کا کوئی نظام موجود نہیں۔ وہ شکایت لے کر پولیس کے پاس نہیں جا سکتے۔ اس کے بجائے انہیں بنگلہ دیش کے انتظامی حکام یا کیمپ میں موجود سیکیورٹی فورسز سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔
متعدد خاندانوں نے بتایا کہ کیمپ کے انچارج یا بنگلہ دیشی عہدیدار( سی آئی سی) سے انہیں پولیس میں رپورٹ کروانے کی اجازت نہیں ملی۔
دیگر نے بتایا کہ انہیں آرمڈ پولیس بٹالین یا ( اے پی بی این) سے شکایت کی اجازت ملی مگر اس کے بعد کچھ نہیں ہوا کیونکہ اس فورس کے پاس سویلین چھان بین کا کوئی نظام نہیں۔
بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کی بحالی اور وطن واپسی کے کمشنر میزان الرحمان نے کہا کہ ان کی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
محمد میزان الرحمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت نے کیمپوں میں رہائش پذیر روہنگیا پناہ گزینوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مسلح پولیس بٹالین کے تین یونٹ تعینات کیے ہیں۔ اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کے رینک کے سینئیر پولیس آفیسر ان کی زیرِ نگرانی کام کر رہے ہیں۔
تقریباً دس لاکھ روہنگیا پناہ گزین بنگلہ دیش کے کاسس بازار یا بھاسن چر نامی الگ تھلگ جزیرے میں ضرورت سے زیادہ بھرے کیمپوں میں مقیم ہیں۔ بیشتر 2017 میں میانمار کی فوج کے ظلم و ستم سے بھاگ کر یہاں آگئے تھے۔
کیمپوں میں رہائش، گزر بسر، نقل و حرکت اور تعلیم پربنگلہ دیش کی سخت پابندیوں کے درمیان تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ پناہ گزینوں کو نہ صرف چیک پوائنٹس پر ہراساں کیا جاتا ہے بلکہ بعض کمیونٹی سکول اور مارکیٹیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔
بنگلہ دیشی حکام کہتے ہیں کہ اس خطرناک صورتِ حال کا صرف ایک ہی حل ہے کہ روہنگیا کو ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے۔ مگر روہنگیا کی محفوظ ، پائیدار اور باعزت واپسی کے حالات نظر نہیں آتے۔
ہیومین رائٹس واچ کی رپورٹ میں بنگلہ دیش حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے کمشنر برائے پناہ گزین، یو این ایچ سی آر، پناہ گزینوں کی بین الاقوامی تنطیم، آئی او ایم ، اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ، یونیسیف اور یو این ویمن اور یو این پاپولیشن فنڈ سب کے ساتھ مشاورت سے کیمپوں میں مقیم ان روہنگیا پناہ گزینوں کے حقوق کا احترام کرنے والی سیکیورٹی پالیسی اختیار کرے۔
ہیومین رائٹس واچ میں ایشیا کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر مناکشی گنگولی کہتی ہیں،" بنگلہ دیش حکومت کو روہنگیا پناہ گزینوں کی حفاظت کرنی چاہئیے نہ کہ جرائم پیشہ لوگوں کو کھلا چھوڑا جائے کہ وہ انہیں نکال باہر کریں۔"