علی رانا
بے نظیر بھٹو قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔ تفصیلی فیصلہ میں انسداد دہشت گردی کے عدالت کے جج کا کہنا ہے کہ استغاثہ پانچوں ملزمان کے خلاف اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ سیکیورٹی کا انتظام بہتر ہوتا تو بے نظیر بھٹو کے قتل کو روکا جا سکتا تھا۔
انسداد دہشتگردی کی خصوصي عدالت کے جج اصغر خان نے 34 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے عدالت میں 6 چالان جمع کرائے گئے۔ جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے بھی 6 چالان پیش کیے گئے۔ 141 گواہوں میں سے صرف 68 کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ استغاثہ گرفتار پانچوں ملزمان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جس پر پانچوں گرفتار ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا جا رہا ہے۔
تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسران کے خلاف پراسیکویشن اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔ سی پی او سعود عزیز، ایس پی خزم شہزاد مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔ سعود عزیز نے بے نظیر کی باکس سیکیورٹی پر مشتمل ایلیٹ پولیس یونٹ ہٹوائی۔ پولیس نے بے نظیر بھٹو کی گاڑی کو اکیلا چھوڑ دیا اور ایک گھنٹہ 40 منٹ بعد ہی کرائم سین دھونے سے شواہد ضائع ہوئے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جائے وقوعہ دھونے سے ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے شواہد اکٹھے کرنا ممکن نہیں رہا، پوسٹ مارٹم نہ کرانے سے بے نظیر کی موت کی وجہ کا بھی پتا نہیں چل سکا۔
فیصلے کے مطابق حکومتی عہدیدار نظیر بھٹو کو پہلے سیکیورٹی دینے میں ناکام رہے اور دوسرا قتل کے تمام ذمہ داروں کی تفتیش کرنے میں نہ صرف حملے کے حوالے سے، بلکہ اس کی وجوہات، منصوبہ بندی اور مالی تعاون کے حوالے سے تفتیش کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر راول پنڈی کی ڈسٹرکٹ پولیس کی جانب سے سیکیورٹی کے بہتر اقدامات کیے جاتے تو بے نظیر بھٹو کے قتل کو روکا جاسکتا تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف کے لیے عدالت نے اپنی تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پرویز مشرف کو پیش ہو کر صفائی دینے کے لیے بار بار سمن جاری کیے۔ پرویز مشرف کو اسکائپ کے ذریعے بھی بیان دینے کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے بیان ریکارڈ نہیں کروا یا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کیس الگ چلایا جائے گا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسکارٹ لینڈ یارڈ ٹیم کی رپورٹ کو بھی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے۔
بے نظیر بھٹو قتل کے 9سال اور 8ماہ بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تھا جس میں پانچوں مرکزی ملزمان کو بری کردیا گیا تھا جبکہ دو پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو سترہ سترہ سال قید کی سزا اور پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا تھا۔
پنجاب حکومت نے بری ہونے والے ملزمان کو رہا نہیں کیا اور انہیں اندیشہ نقص امن کی دفعہ 3 ایم پی او کے تحت ایک ماہ کے لیے نظر بند کردیا ہے۔