رسائی کے لنکس

کیاغنی حکومت افغانستان سے امریکی انخلاء کے ارادے پر یقین نہیں کر سکی تھی؟


سابق افغان صدر اشرف غنی۔ فائل فوٹو
سابق افغان صدر اشرف غنی۔ فائل فوٹو

امریکہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سابق حکومت جسے بین الاقوامی حمایت حاصل تھی، 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے سے پہلے، بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ اس حقیقت کا یقین نہ کرنے کے باعث ناکام ہوئی کہ امریکہ افغانستان سے واقعتاً واپس جا رہا ہے۔

افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے سپیشل انسپکٹر جنرل یا سگار نے جوافغانستان میں امریکی سرمایہ کاری کا آڈٹ کرتا ہے، موجودہ اور سابق امریکی عہدیداروں اور سابق افغان حکومت کے عہدیداروں اور ماہرین سے گفتگو پر مبنی یہ رپورٹ تیار کی ہے۔

سگار کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی، انتہائی چنیدہ، قریبی وفاداروں کی ایک مختصر تعداد کے ساتھ حکومت چلا رہے تھے جو ایک اہم موڑ پر حکومت کے عدم استحکام کا باعث بنا۔

افغانستان: سابق حکومت کے اہم عہدے دار اب کہاں ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:29 0:00

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت میں مرکز کا انتہائی کنٹرول، وسیع بد عنوانی اور کسی جواز کےحصول کی جدوجہد طویل عرصے کے وہ عناصر تھے جنہوں نے بالآخر ا س کےاختتام میں اہم کردار ادا کیا۔

رپورٹ کے مطابق اس حقیقت نے کہ امریکہ نے 20 سال تک افغانستان کی مدد کی اور یہ کہ اپنی جدید تاریخ میں افغانستان غیر ملکی امداد پر انتہائی انحصار کرتا رہا، افغان سیاستدانوں اور لیڈروں کے لیے امداد کے بغیر کسی مستقبل کا تصور ناممکن بنا دیا۔

سگار کے جائزے کے مطابق امریکہ بھی افغانستان میں بد عنوانی کے مسٔلے کو حل کرنے میں ناکام رہا اور مستحکم، جمہوری، سب کی نمائندگی کے حامل، صنفی لحاظ سے حساس اور جواب دہ افغان سرکاری ادارے قائم کرنے کا اپنا ہدف حاصل نہ کرسکا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے جون 2021 تک افغانستان کے لیے 145 ارب ڈالر مختص کیے جن میں سے 36.3 ارب ڈالر گورنس اور معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے تھے۔ مگر ہوا کیا، حکومت ختم ہوگئی، غنی ملک سے بھاگ گئے، امریکی قیادت میں نیٹو کے فوجی واپس چلے گئے اور طالبان نے تیزی سے ملک پر قبضہ کر لیا۔

سگار نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ 20 سال سے زیادہ عرصے میں تین امریکی صدر آئے مگر افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے بارے میں امریکہ کی رائے بدلتی رہی۔ واشنگٹن میں پالیسی سازوں اور دیگر سے افغان حکومت کو ملے جلے پیغامات ملتے رہے جن میں غیر ملکی فوجوں کی واپسی کے لیے تیار نہ ہونے کی بات کی گئی

یو ایس آرمی وار کالج میں نیشنل سیکیورٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر، کرس میسن نے سگار سے بات کرتے ہوئے کہا، " افغانستان کے حکومتی اداروں کی تعمیر اور استحکام کی امریکی کوششیں یکسر ناکام ہوئیں، یہ ویسی ہی وجوہات، کوششیں اور نتائج تھے جو کہ ویت نام کی جنگ کے بعد حاصل ہوئے تھے

سگار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت کے خاتمے سے پہلے تعمیرِ نو کی امریکی کوششوں اور افغان حکمرانی کے مقاصد حاصل کرنے کی جانب کچھ کامیابی نظر آئی تھی۔

رپورٹ کے الفاظ میں،"نجی اور سرکاری دونوں شعبوں میں امریکہ اور اس کے بین الاقوامی شراکت داروں کی جانب سے پیدا کیے گئے مواقع اورتعلیم اورٹریننگ نے مل کر لوگوں کی استعداد اور اداروں کی اہلیت میں اضافہ کیا۔"

سگار کے مطابق اگرچہ صلاحیتوں میں اضافے کی کوششیں غیر تسلی بخش رہیں مگر کچھ بہتر نتائج بھی سامنے آئے۔ سابق افغان حکومت کے باقی ماندہ ادارے جن میں مرکزی بنک اور صحت اور خزانے کی وزارتیں شامل تھیں، اب بھی کام کر رہے ہیں مگر ان کا پائیدار رہنا غیر یقینی ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 15 ماہ پہلے جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں، انہوں نے ایسی تمام وزارتیں اور محکمے ختم کر دیے جن کا تعلق آزادئ اظہار اور افغان شہریوں خصوصاً خواتین کے حقوق سے تھا اور ملک میں حکمرانی کے لیے مذہبِ اسلام کی اپنی توجیہہ پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔

سگار کا کہنا ہے کہ اس نے اس رپورٹ کا مسودہ امریکی محکمہ خارجہ، محکمہ دفاع اور یو ایس ایڈ کو جائزہ لینے اور تبصرے کے لیے بھیجا تھا مگر صرف محکمہ خارجہ کا باضابطہ تحریری ردِ عمل موصول ہوا ہے جس میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے،" بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں اور اس وقت کی صدر اشرف غنی کی حکومت کے درمیان رابطوں میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی تمام فورسز کے مکمل انخلاء کی تیاری کر رہاہے۔

سگار کے مطابق محکمہ خارجہ کے خط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سگار کی اس رپورٹ میں، سیاسی مقاصد کے حصول میں امریکی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کو جس معیار پر پرکھا گیا ہے، اس پر مکمل نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔"

XS
SM
MD
LG