وائٹ ہاؤس سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے 22 جون کے امریکہ کے سرکاری دورے میں صدر جو بائیڈن اور خاتون اول جل بائیڈن ان کی میزبانی کریں گے۔
اس دورے میں ایک سرکاری عشائیہ بھی شامل ہو گا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان قریبی شراکت داری ، دوستی اور خاندانی سطح کے گرم جوش بندھن، امریکیوں اور بھارتیوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔
بیان کے مطابق نریندرمودی کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے آزاد، کھلے، خوشحال اور محفوظ ہند بحرالکاہل کے مشترکہ عزم کو مزید مضبوط کرے گا۔ اور دفاع، صاف توانائی اور خلا سمیت ہماری اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کی شراکت داری کو تقویت دینے کے ہمارے مشترکہ عزم کو تقویت دے گا۔
وائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے راہنما ہمارے تعلیمی تبادلوں اور عوام سے عوام کے تعلقات کو مزید وسعت دینے کے طریقوں پر بات چیت کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ آب و ہوا کی تبدیلیوں، افرادی قوت کی ترقی اور صحت کی حفاظت کے مشترکہ چیلنجوں کے مقابلہ کے لیے مل کر کام کریں گے۔
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس دورے کا مقصد دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینا ہے، جس میں دفاعی شراکت داری کو مضبوط کرنا اور آب و ہوا کی تبدیلی جیسے مشترکہ چیلنجوں کا مل کر مقابلہ کرنا بھی ہے۔
بھارت کی اہمیت اس کی تیز رفتار معاشی ترقی ، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کی وجہ سے بھی ہے۔
نریندی مودی کو حکومت کی جانب سے میڈیا پر کریک ڈاؤن اور اقلیتی مسلمانوں کے حقوق کو محدود کرنے کے سلسلے میں بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے۔
واشنگٹن تیزی سے قوت حاصل کرتے ہوئے چین کے خلاف بھارت کو ایک مضبوط طاقت کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن نئی دہلی نے امریکہ کے ساتھ باضابطہ فوجی اتحاد کی مزاحمت کی ہے۔
یہ مودی کا امریکہ کا پہلا سرکاری دورہ ہوگا۔ انہوں نے 2021 میں وائٹ ہاؤس کا دورہ کوارڈ سربراہی اجلاس کے ایک حصے کے طور پر کیا تھا جس میں امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت شامل تھے۔
نئی دہلی نے اس دورے کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیتے ہوئے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے واشنگٹن کے ساتھ تعاون بڑھانے اور کواڈ کی سرگرمیوں کو وسعت دینے اور مضبوط کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیالات کا موقع ملے گا ۔
(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات اے پی سے لی گئیں ہیں)