پاکستان میں جاری سیاسی کشیدگی اور ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں میں پرتشدد مظاہروں کے باعث معاشی صورتِ حال مزید غیر یقینی ہو گئی ہے۔
پاکستانی کرنسی کی قدر میں صرف ایک روز میں تقریباً دو فی صد کی بڑی گراوٹ دیکھی گئی ہے جس سے ملک میں آنے والے ہفتوں میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
بدھ کو انٹر بینک میں کاروبار کے اختتام پر ایک امریکی ڈالر 290 روپے 22 پیسے کا ہو گیا جو ملکی تاریخ میں ڈالر کی بلند ترین سطح ہے۔ صرف ایک روز میں ڈالر کی قیمت میں پانچ روپے 38 پیسے کی بڑی گراوٹ دیکھی گئی۔
اسی طرح مارکیٹ میں ڈالر 295 روپے میں فروخت ہو رہا تھا۔ نہ صرف ڈالر بلکہ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں سعودی ریال، یورو اور دیگر کرنسیوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی کاروبار کے دوران 298 پوائنٹس کی بڑی کمی دیکھی گئی اور انڈیکس 41 ہزار 74 کی سطح پر بند ہوا۔
روپے کی گرتی ہوئی قدر پر تبصرہ کرتے ہوئے ایکسچینج مارکیٹ کے تجزیہ کار عبداللہ عمر کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری کشیدہ صورتِ حال میں غیریقینی کے باعث ملکی خزانے میں ڈالر کی آمد کم ہونے کے باعث روپے کی قدر میں کمی دیکھی جارہی ہے۔
ایک اور تجزیہ کار شہریار بٹ کا خیال ہے کہ روپے کی قدر میں یہ غیر معمولی کمی بالکل غیر متوقع نہیں تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر صرف 4.4 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جب کہ معاشی اعشاریے معیشت کا پہیہ سست ہونے کی نشان دہی کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں سیمنٹ کی فروخت کم ہوئی ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر کی ایکسپورٹ میں 15 فی صد کی کمی دیکھی گئی ہے جب کہ گاڑیوں کی فروخت میں 70 فی صد کمی ہوچکی ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں ملک کے معاشی مسائل کھل کر سامنے آچکے ہیں اور مستقبل قریب میں ان کا کوئی حل بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہت نیچے گر چکی ہے جب کہ دوست ممالک مزید مدد کرنے کو تیار نظر نہیں آتے اور ایسے میں لوگ بیرون ملک سے اپنی آمدن پاکستان منتقل کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے ان حالات میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے امکانات اور بھی محدود ہوچکے ہیں۔ خیال رہے کہ اسٹاف لیول ایگریمنٹ کو پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادایئگی اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
عبداللہ عمر کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ ان حالات میں آئی ایم ایف کا معاہدہ ممکن ہو پائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں سیاسی زلزلہ آنے کے بعد نئی حکومت کی جانب سے معاملات سنبھالنے کے بھی 6 ماہ بعد جاکر آئی ایم ایف کے پیسے آسکے۔ وہاں زیادہ عرصے سیاسی کشیدگی کے اثرات نہیں رہے جب کہ پاکستان میں ابھی سے سیاسی کشیدگی نمایاں نظر آ رہی ہے۔
ایک جانب ملک میں جہاں اسی سال عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور دوسری جانب حکومت کے لیے آئی ایم ایف نے جو معاشی اہداف مقرر کیے تھے وہ بھی پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے تو ایسے میں حکومت کے لیے فنڈ کے ساتھ ڈیل کرنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
عبداللہ عمر کے مطابق ان حالات میں حکومت فوری قرضوں کی ادائیگی کے لیے عارضی اقدامات کرے گی۔ مثال کے طور پر چین یا دیگر دوست ممالک سے اس حوالے سے مدد کی درخواست کی جاسکتی ہے۔
شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باعث حکومت عالمی منڈی میں تیل کی کم ہوتی ہوئی قیمتوں کا فائدہ بھی عوام کو منتقل کرنے کی متحمل نہیں ہوپا رہی۔ جب کہ اجناس بشمول غذائی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کو جہاں مزید مہنگائی کے لیے تیار رہنا ہوگا وہیں قوت خرید کم ہونے کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے جا رہی ہے۔
ادھر ملک کے بڑے شہروں میں موبائل براڈ بینڈ سروسز کی معطلی کے معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر کے اندرونی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انٹرنیٹ معطلی کے نتیجے میں ٹیلی کام آپریٹرز کو کافی نقصان ہوا ہے اور اس کا اب تک کا تخمینہ 82 کروڑ روپے کا لگایا جاچکا ہے۔
دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر میں اپریل میں ماہانہ بنیادوں پر 12.9 فی صد کی کمی دیکھی گئی۔
اس سال کے پہلے 10 ماہ میں بیرون ملک سے پاکستانیوں نے 22.7 ارب امریکی ڈالرز بھیجے جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے کے دوران بھیجی گئی رقوم سے 13 فی صد کم ہیں۔