سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی مقامات پر مشتعل افراد نے سرکاری و نجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ان حالات میں امن و امان کی صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لیےوفاقی دارالحکومت اسلام آباد، صوبۂ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج طلب کرلی گئی ہے۔
عام طور پر سول انتظامیہ قیامِ امن کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ کرتی ہے جس کے تحت سیاسی اجتماعات اور مظاہروں وغیرہ پر پابندی عائد کرکے حالات قابو کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔ جب کہ امنِ عامہ کے لیے فوج کی طلبی کو غیر معمولی اقدام تصور کیا جاتا ہے۔
وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت صوبائی حکومت کی سفارش پر سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج تعینات کرنے کے احکامات جاری کرسکتی ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومت کو یہ اختیار دینے کے ساتھ ساتھ وہ حالات بھی بیان کیے گئے ہیں جن میں یہ اقدام کیا جاسکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سابق سیکریٹری داخلہ خیبر پختونخوا سید اختر علی شاہ نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کی پہلی شق کے مطابق وفاقی حکومت ملک کو درپیش بیرونی حملے یا جنگ کے خطرے کے پیشِ نظر فوج کو طلب کرسکتی ہے۔ قانون کی عمل داری کے لیے سول انتظامیہ اسی آرٹیکل کے تحت مدد کے لیے فوج کو طلب کرسکتی ہے۔
سابق سیکریٹری داخلہ کے مطابق اسی آرٹیکل کی شق دوکے مطابق وفاقی حکومت کے اس اقدام کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق جب فوج آرٹیکل 245 کے تحت ایک مرتبہ تعینات ہو جاتی ہے تو پھر ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کے تحت بنیادی حقوق سے متعلق کیسز کی سماعت نہیں کر سکتی ہے۔
’فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا‘
بدھ کے روز پشاور میں ہونے والے ایک احتجاج میں پُرتشدد مظاہرین نے ریڈیو پاکستان کی عمارت کو آگ لگادی۔ پولیس کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران خیبر پختونخوا میں مختلف مقامات پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران پانچ افراد ہلاک اور70 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں جن میں پولیس اہل کار بھی شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق پنجاب پولیس نے بتایا ہے کہ مشتعل ہجوم نے پولیس کی 25 گاڑیوں اور 14 سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور ہنگامہ آرائی کرنے والے 945 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
تاہم سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل آصف یاسین ان حالات میں امن و امان کی صورتِ حال کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں فوج طلب کرنے کے فیصلے کو جلد بازی قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے واضح کیا کہ سیکیورٹی کی صورتِ حال کنٹرول میں رکھنے کے لیے تین لیئرز ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے پولیس، پھر رینجرز جب کہ آخر میں فوج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
ان کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے وقت بھی فوج کو سب سے آخر میں بلایا گیا تھا لیکن موجودہ حالات میں پہلے ہی مرحلے میں فوج کو طلب کرلیا گیا ہے۔
آصف یاسین کے مطابق ایک سویلین حکومت میں، پولیس اور پیرا ملٹری فورس کی موجودگی میں فوج کو عوام کے مدمقابل لانے سے بدگمانی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
’رائٹ پولیس احتجاج ہینڈل کرنے میں ناکام رہی ہے‘
سابق سیکریٹری خیبر پختونخوا اختر علی شاہ کے مطابق نوے کی دہائی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی جانب سے بڑے پیمانے پر لانگ مارچ ہوتے آئے ہیں۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقعے پر بھی حالات بہت خراب تھے۔ ان واقعات کو پولیس نے اچھے طریقے سے ہینڈل کیا تھا۔
تاہم ان کے بقول موجودہ چند برسوں میں عمران خان، طاہر القادری اور تحریک لبیک کی جانب سے ہونے والے احتجاج کو رائٹ پولیس احسن طریقے سے ہینڈل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
سید اختر علی شاہ کے مطابق آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی کارروائیوں کو عدالت میں چیلنچ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لیےضروری ہے کہ پولیس، احتجاج اور ہنگامی حالات پر قابو پانے کے لیے رائٹ پولیس کو بہتر انداز میں تربیت فراہم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند برسوں میں ہنگامی حالات کے دوران پولیس کی کارکردگی پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔