امریکہ، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے سربراہان منگل کے روز ٹوکیو میں اکٹھے ہوئے، جہاں انھوں نے انڈو پیسیفک کے خطے کو آزاد اور کھلا رکھنے کی کوششوں کو فروغ دینے کا عہد کیا ، ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلی کے معاملے اور کووڈ 19 کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون کو فروغ دینے سے متعلق بات چیت کی۔
اس چارملکی غیررسمی اتحاد کے سربراہ اجلاس کے آغاز پراپنے خطاب میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یوکرین پر روس کی جارحیت محض یورپی معاملہ نہیں، بلکہ ایک عالمی معاملہ ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ علاقائی یکجہتی اورآزادی، بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے اصولوں کا ہمیشہ دفاع کیا جانا چاہیے، چاہے خلاف ورزی کا عمل دنیا کے کسی بھی حصے میں واقع ہوا ہو۔
جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا نے بھی اپنے ابتدائی کلمات میں یوکرین کے تنازعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم انڈو پیسیفک کے خطے میں ایسی کسی بات کی اجازت نہیں دے سکتے۔
ایسے میں جب اس چار ملکی اتحاد کے دیگرارکان نے یوکرین پر حملہ کرنے پرروس کی مذمت کی اورروس کے خلاف پابندیاں عائد کیں۔ بھارت نے ایسا نہیں کیا، اوراپنے کلمات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس تنازع کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
آسٹریلیا کی نئی منتخب وزیر اعظم، اینتھنی البانیز نے موسمیاتی تبدیلی کے معاملے پر توجہ دینے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت بڑھ چڑھ کر اقدام کرے گی۔
البانیز نے کہا کہ ہمیں اس کا بخوبی علم ہے کہ بحرالکاہل کے جزیرہ نما ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی ایک اہم معاشی اورسیکیورٹی چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے
ایک سال سے کم عرصے کے دوران ان قائدین کا بالمشافہ دوسرا سربراہی اجلاس ہے۔
بائیڈن اس وقت جاپان میں ہیں۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، بائیڈن کا یہ ایشیا کا پہلا دورہ ہے، جاپان آنے سے قبل وہ جنوبی کوریا کا سفر کر چکے ہیں۔
پیر کو بائیڈن نے ایشیا پیسفک کے مابین تجارت کے فروغ کے اقدام کا آغاز کیا، جس دستاویز پر13 ملکوں نے دستخط کیے ہیں جن میں بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ انڈو پیسفک اکانامک فریم ورک کے آغاز کا مقصد امریکہ کی جانب سے ایشیا میں معاشی فروغ میں شرکت کرنا ہے، جن میں سپلائی چین، شفاف توانائی اور کارکنان کے تحفظ جیسے معاملات کے حوالے سے تعاون کو فروغ دینا شامل ہے۔
بائیڈن نے پیر کے دن کہا تھا کہ چین کی جانب سے تائیوان پر حملے کی صورت میں، امریکہ تائیوان کے دفاع کے لیے مداخلت کرے گا۔ بائیڈن کی جانب سے یہ بیان اس معاملے پر امریکہ کے طویل مدتی پالیسی پر شک کی گنجائش پیدا کرتا ہے، جب کہ اب تک امریکہ کی پالیسی حکمت عملی کی نوعیت کے ابہام پر قائم رہی ہے۔
ٹوکیو میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، بائیڈن سے پوچھا گیا آیا تائیوان کا دفاع کرنے کے لیے امریکہ فوجی طور پر معاملے میں ملوث ہونا چاہے گا، چونکہ یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں امریکہ ایسا کرنے سے احتراز برت رہا ہے۔
بائیڈن نے کہا: ہاں۔ یہی عزم ہے جس کا اظہار ہم کرچکے ہیں۔ تاہم، انھوں نے اس بات کی تفصیل بیان نہیں کی کہ امریکہ کی جانب سے تائیوان کے اس قیاس آرائی پر مبنی دفاع سے ان کی کیا مراد ہے۔