"طوفان اب قریب آرہا ہے تو گاؤں چھوڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، زندہ بچیں گے تو مچھلی پکڑ کر بچوں کو پال لیں گے ابھی تو جان بچانی ہے آگے خدا کی مرضی۔"
45 سالہ سنہری اپنے سات بچوں کے ساتھ صوبہ سندھ کے ضلع سجاول کے کاجہری واری کوری گاؤں سے نکل کر محفوظ مقام کی جانب روانہ ہو چکی ہیں۔
سنہری کو اس طوفان سے اب اس لیے زیادہ خوف محسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنے بہت سے پیارے مئی 1999 میں آنے والے تباہ کن طوفان زیرو ٹو اے میں گنوا دیے تھے۔
طوفان کی ہیبت اور اس سے ہونے والی تباہی کو وہ قریب سے دیکھ چکی ہیں۔ اس بار وہ اپنے بچوں کو کوئی ایسا منظر نہیں دکھانا چاہتیں جو ان کی یاد داشت پر مدتوں نقش رہے۔
پاکستان کو اس وقت بحیرہ عرب میں بننے والے طوفان 'بپر جائے' کا سامنا ہے جسے محکمہ موسمیات (ویری سیویور سائیکلونگ اسٹارم) قرار دے رہا ہے جس کا مطلب انتہائی طاقت ورطوفان ہے۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ حالیہ انتباہ میں بتایا جا رہا ہے کہ اس وقت یہ طوفان کراچی کے جنوب میں 400 کلو میٹر کی دوری پر ہے اور اس کی شدت اور رفتار میں اب تیزی آتی جا رہی ہے۔
اس طوفان نے 15 جون کی دوپہر یا شام تک کیٹی بندر اور بھارتی گجرات سے گزرنا ہے۔ اس دوران ہواؤں کی رفتار 100 سے 120 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوسکتی ہے۔
اونچی لہروں کے سبب کیٹی بندر کے نشیبی علاقے زیرِ آب آ سکتے ہیں جب کہ 13 سے 17 جون کے دوران تباہ کن طوفانی بارشیں ٹھٹھہ، بدین، سجاول، عمر کوٹ، تھرپارکر میں متوقع ہیں۔
اس طوفان کے زیر اثر 14 سے 16جون کے درمیان کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہیار، سانگھڑ، نوابشاہ(شہید بے نظیر آباد) بھی تیز آندھی اور موسلا دھار بارشوں کی زد میں رہے گا۔
بپر جائے کے مرکز اور اطراف میں اس وقت 170 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں اور اس کے گرد لہروں کی اونچائی 30 فٹ ہے جو اس کو تیزی سے آگے بڑھنے میں مدد دے رہی ہیں۔
طوفان کے پیشِ نظر اس وقت سندھ کے ساحلی علاقوں میں موسم بدل چکا ہے۔ ضلع بدین، سجاول، کیٹی بندر، ٹھٹھہ میں اس وقت تیز ہوائیں اور بارشوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
سجاول کے ڈپٹی کمشنر امتیاز ابڑو کے مطابق ساحلی علاقوں سے 36 ہزار لوگوں کی نقل مکانی ہونی تھی لیکن ضلع جاتی سے اب تک 16 ہزار لوگوں کو نکال لیا گیا ہے۔
تیز بارشوں کے سبب کھاروچان میں اب بھی چھ ہزار سے زائد افراد پھنسے ہوئے ہیں جہاں گاڑیاں جانا ممکن نہیں۔ اس لیے رینجرز اور نیوی کی مدد لی جا رہی ہے۔ شاہ بندر کے علاقے سے بھی اب تک آٹھ ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ضلع سجاول میں اس وقت 12 ریلیف کیمپس بنائے گئے ہیں۔
بدین کے مقامی صحافی عمران عباس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رات سے بدین کے ساحلی علاقوں سے ماہی گیروں اور ان کے خاندانوں کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے۔
عمران عباس کے مطابق رمضان ملاح، ضلع سجاول کا وہ گاؤں ہے جہاں 10 ہزار ماہی گیر آباد ہیں۔ یہ گاؤں دو ہزار گھروں پر مشتمل ہے یہاں کے ماہی گیر مچھلیوں اور جھینگوں کا شکار کر کے کراچی بھیجتے ہیں۔
اس گاؤں کو سب سے پہلے خالی کروایا گیا ہے کیوں کہ اس کے طوفان سے براہ راست متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے سمندر کا پانی آگے بڑھ رہا ہے جو چھوٹی چھوٹی جھیلوں کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اس وقت طوفان کے موسم میں ان جھیلوں میں طغیانی بڑھ چکی ہے اس لیے اطراف کے دیہات تیزی سے خالی کرائے جا رہے ہیں۔
بدین کے زیرو پوائنٹ کے بھگڑا میمن گوٹھ کو بھی مکمل طور پر خالی کروالیا گیا ہے جو اس وقت ویرانی کا منظر پیش کر رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق بدین کے دیگرگاؤں اور دیہات جن میں سیرانی، آمد راجو، حاجی حجام، حاجی صفی میندھرو مکمل طور پر خالی کروا لیے گئے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق طوفان سے جن دیہات کو زیادہ خطر ہ لاحق ہیں ان میں سے بیشتر میں اب کوئی موجود نہیں۔ ان خاندانوں کو بدین ہائی وے کے اطراف اور سرکاری اسکولوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ کیوں کہ طوفان کی وجہ سے کیٹی بندر اور ٹھٹھہ کے ساحلی علاقوں کے بند پر دباؤ بڑھ چکا ہے۔
"پہلے بھی طوفانوں کا سنتے تھے پر وہ پلٹ جاتے تھے اس بار بھی امید تھی کہ ایسا ہوگا لیکن نہ جانے خدا کو کیا منظور ہے۔ گھر والے تو آخری وقت تک اس امید میں تھے کہ گھر نہ چھوڑنا پڑے لیکن نکلنا پڑا۔ اب جب واپس جائیں گے تو نہ گھر ہوگا نہ سامان۔ طوفان نہ غریب دیکھتا ہے نہ محنت، سب بہا لے جاتا ہے۔"
یہ کہنا ہے 60 سالہ نعمت اللہ کا جو اپنے خاندان کے ہمراہ ایک سرکاری اسکول میں گزشتہ رات سے پناہ لیے ہوئے ہیں۔ انہیں طوفان کا خوف تو ہے لیکن اتنی جلدی میں گھر بار چھوڑ کر آنے کا دکھ بھی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کے خاندان کے 17 لوگ جن میں ان کے بیٹے، بہوئیں، پوتے پوتیاں شامل ہیں ضرورت کے کپڑے اور پیسے لے کر اس اسکول میں آ کر بیٹھ گئے ہیں جہاں نہ بجلی ہے اور نہ ہی کوئی سہولیات۔
انخلا کے نتیجے میں نکلے خاندانوں نے بدین ہائی وے پر صوبائی حکومت کے خلاف ناقص انتظامات کرنے پر احتجاج بھی کیا۔ لیکن ان خاندانوں کے پاس طوفان سے متاثرہ علاقوں میں رکنے کا کوئی جواز بھی نہیں بچا تھا۔
ضلع جاتی کے رہائشی اسکول ٹیچر نور محمد اپنے گاؤں سے ملحقہ علاقوں سے لوگوں کو نکلنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں پہلے بتایا گیا کہ بڑی گاڑیاں آئیں گی جو خاندانوں کو نکالیں گی لیکن جب بارشیں شروع ہوگئیں اور جھکڑ چلنے لگے تو ہم نے چھوٹی گاڑیوں کا بندوبست کر کے دو سے تین خاندانوں کو ایک گاڑی میں سوار کروا کے نکالنا شروع کیا۔ اگر ہم انتظار میں رہتے تو طوفان سر پر آجاتا کیوں کہ یہاں تو تین یونین کونسل میں چھوٹے بڑے تین سو دیہات ہیں۔"
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے مطابق اب طوفان آ رہا ہے۔ جو کرنا ہے طوفان نے کرنا ہے ہم اس سے پہلے ریسکیو کر سکتے ہیں جو ہم کر رہے ہیں۔ منگل کو اُنہوں نے کراچی کے ساحلی علاقے ابراہیم حیدری سے ملحقہ چشمہ گوٹھ کا بھی دورہ کیا جس کے حوالے سے خبریں آ رہی تھی کہ سمندر میں طغیانی سے اس علاقے میں پانی داخل ہو رہا ہے۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سندھ بھر میں ہائی الرٹ ہے اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ پوری ذمے داری سے اپنا کام کر رہا ہے۔ انہوں نے طوفان کے دوران شہریوں کو بھی گھر سے غیر ضروری نکلنے سے منع کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو کہا۔
"ہم مساجد میں اعلانات کر رہے ہیں اور ماہی گیروں کو سمندر میں جانے سے روک رہے ہیں کیوں کہ آج سے سمندر بے رحم نظر آرہا ہے۔" یہ کہنا ہے فشر فوک فورم کے ترجمان کمال شاہ کا جو ابراہیم حیدری کے رہائشی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کمال شاہ کا کہنا تھا کہ اس وقت وہ ماہی گیر شکار سے لوٹ رہے ہیں جو پرسوں رات گئے تھے انہیں طوفان کی شدت کا اندازہ نہیں تھا۔لیکن اب وہ لہروں اور تیز ہواؤں کے سبب وقت سے پہلے محدود شکار کے ساتھ لوٹ رہے ہیں۔ جون جولائی میں سمندر میں شکار پر پابندی ویسے ہی عائد ہوتی ہے اور اس بار طوفان بھی سر پر منڈلا رہا ہے تو ایسے میں ماہی گیر کیوں بپھرتے سمندر سے خطرہ مول لینے نکل پڑے؟
اس سوال کے جواب میں ملاح سلیمان کا کہنا تھا کہ "ڈر تو لگتا ہے لیکن کیا کریں بچوں کا پیٹ بھی تو پالنا ہے۔ اب یہ طوفان کیا تباہی مچائے گا اور کب ختم ہوگا نہیں۔ معلوم مجھے بس اتنا پتا ہے کہ اب کشتی بند ہے تو گھر میں فاقے ہوں گے۔"
طوفان کی شدت اور رفتار میں اضافہ ہو چکا ہے اور اس کا اثر سندھ کے ساحلی علاقو ں میں دکھائی دینے لگا ہے۔ ایسے میں اقوامِ متحدہ کے ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آف کلائیمیٹ چینچ کے مطابق مون سون سے قبل سمندری طوفانوں کا بننا ایک عام بات ہے۔
لیکن اس کی شدت میں اضافے کی اہم وجہ گلوبل وارمنگ ہے جو سطح سمندر اور اس سے نیچے 50 میٹر کی گہرائی میں درجہ حرارت کا بڑھنا ہے، جو ان طوفانوں کی شدت میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
یہ کہنا تو قبل از وقت ہے کہ پاکستان کے ساحلی علاقوں کو بپر جائے کے گزرنے کے بعد کس تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔لیکن 1999 میں آنے والا زیرو ٹو اے وہ طوفان ضرور تھا جس کی قیمت ٹھٹھہ، بدین، سجاول کے ساحلی علاقوں پر بسنے والے سینکڑوں ماہی گیروں نے اس وقت چکائی جب وہ شکار پر تھے اور طوفان آپہنچا۔
آج ان ساحلی علاقوں کی بہت سی بستیوں کے مرد ماہی گیرو ں کی بیوائیں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے مچھلی کا شکار کرتی ہیں۔
یہ خاندان آب و ہوا کی تبدیلی کی قیمت اتنے برس گزر جانے کے باوجود آج بھی ادا کر رہے ہیں اور اب یہی خاندان دوسری بار اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب رواں دواں ہیں۔