رسائی کے لنکس

نشتر اسپتال ملتان کی چھت سے ملنے والی لاشیں کس کی ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومتِ پنجاب نے نشتر اسپتال ملتان کی چھت سے انسانی لاشیں ملنے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے جسے تین روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

انکوائری کمیٹی محکمۂ داخلہ پنجاب کے قواعدوضوابط (ایس او پیز) کے مطابق تحقیقات کرے گی۔ کمیٹی کی سربراہی ایڈیشنل سیکریٹری اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ساؤتھ پنجاب مزمل بشیر کر رہے ہیں۔

کمیٹی اِن امور پر بھی تحقیقات کرے گی کہ آیا اسپتال کا عملہ لاشوں کے ڈھانچوں کو فروخت کرنے کے کاروبار میں تو ملوث نہیں ہے۔

واضح رہے بدھ کو نشتر اسپتال میں انسانی لاشوں کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر طارق زمان گجر عوامی شکایات پر جانچ پڑتال کے لیے نشتر اسپتال ملتان پہنچے تو اسپتال کی چھت پر لاوارث لاشیں کھلے آسمان تلے بے گورو کفن پڑی تھیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق بعض لاشوں کو چرند پرند اور حشرات نے نوچ رکھا تھا جس کے باعث تعفن بھی پھیلا ہوا تھا۔

حکام کی جانب سے نوٹس لئےجانے کے بعد لاوارث لاشوں کو دوبارہ مردہ خانے منتقل کر دیا گیا ہے۔ جہاں اُن کی تدفین کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

لاوارث لاشوں کی شناخت اور تدفین کیسے کی جاتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:03 0:00

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں نشتر میڈیکل کالج کے پرنسپل رانا الطاف سے متعدد بار رابطہ کیا لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔ البتہ نشتر میڈیکل کالج کے ترجمان ڈاکٹر سجاد مسعود نے بتایا کہ اسپتال کی چھت پر موجود لاوارث لاشوں کی تعداد چارتھی اور لاشوں کو میڈیکل کے طلبہ کے پریکٹیکل کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ لاوارث لاشوں کو ڈائی سیکشن کر کے چھتوں پر پیوریفائی کر کے رکھا جاتا ہے۔ جن سے ہڈیاں الگ کرکے طب کے طالبعلموں کو پڑھایا اور سیکھایا (ٹریننگ) جاتاہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ کئی لاوارث ڈیڈ باڈیز میڈیکل کالج کو عطیہ بھی کی جاتی ہیں۔ جس کا نوٹی فکیشن بھی موجود ہے۔

انسانی لاشیں تجربات کے لیے کیسے استعمال ہوتی ہیں؟

میو اسپتال لاہور کے سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر زاہد پرویز کہتے ہیں کہ ملتان میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے کیوں کہ لاشوں کی اس طرح بے حرمتی نہیں کرنا چاہیے۔

اُنہوں نے بتایا کہ لاوارث لاشوں کا طب کے طالب علموں کو پڑھانے اور سکھانے کے لیے ضرور استعمال کیا جاتا ہے لیکن لاشوں کو ایک محفوظ طریقے سے مختلف کیمیکل سے گزار کر محفوظ کر کے قابلِ استعمال بنایا جاتا ہے۔ ان کے بقول نشتر اسپتال کی چھت سے ملنے والی لاشوں کا معاملہ انسانی غفلت کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جو مناظر ملتان کے سرکاری اسپتال سے منصوب کیے جا رہے ہیں وہ غیرانسانی فعل ہے۔ جس کی کسی بھی طرح سے وکالت نہہیں کی جا سکتی۔

لاوارث لاشوں کو بطور تجربات استعمال کرنے کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ایسی لاشوں کے مسلز کو طب کے طے کردہ قواعد کے مطابق اتارا جاتا یعنی ڈائی سیکشن کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد اُنہیں خشک کیا جاتا ہے جن کی ہڈیوں کو فارملین کے محلول میں ڈال دیا جاتا ہے اور بقیہ اعضا کو دفن کر دیا جاتا ہے۔

لاوارث لاشیں کیسے دفنائی جاتی ہیں؟

ایدھی سینٹر لاہور کے ترجمان نویس بھٹی کہتے ہیں کہ لاوات لاشوں کو ایک طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق دفنایا جاتا ہے جس میں تمام تر قانونی کارروائیوں کو مکمل کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لاوارث لاشوں سے متعلق جب بھی 15 پر کال چلتی ہے تو پولیس موقع پر پہنچ جاتی ہے۔ جس کے بعد پولیس ایدھی سنیٹر سے رابطہ کر کے لاوارث لاش دفنانے کا کہتی ہے۔ جس کے بعد لاش کو مردہ خانہ منتقل کر دیا جاتا ہے۔ بعدازاں پولیس اخبارات میں لاش سے متعلق اشتہاردیتی ہے اور رپورٹ درج کرائی جاتی ہے۔

ان کے بقول اخبارات میں اشتہار کے شائع ہونے کے پندرہ روز بعد کسی بھی شخص کی جانب سے رابطہ نہ کرنے پر پولیس ایدھی سینٹر کو لاش دفنانے کا کہتی ہے اور لاش کو امانتاً دفنا دیا جاتا ہے۔

نویس بھٹی کا کہنا تھا کہ اسپتال کالجز مردہ خانوں سے تجریات یا پڑھائی کے لیے لاشیں کیسے حاصل کرتے ہیں اِس بارے میں انہیں معلوم نہیں۔

خیال رہے صوبہ پنجاب میں انسانی لاشوں کو دفنائے نہ جانے اور بے حرمتی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اِس سے قبل بھی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات اور تحصیل پتوکی میں رواں برس لاشوں کی بے حرمتی کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG