حکومتِ پاکستان کی طرف سے بیرونِ ملک پاکستانی سیاست دانوں کے اثاثوں کی چھان بین کے لیے خدمات فراہم کرنے والی کمپنی 'براڈ شیٹ' کو اربوں روپوں کی ادائیگی کی تحقیقات کرنے والے براڈشیٹ کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔ رپورٹ میں بیوروکریسی پر ریکارڈ چھپانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں وکیل احمر بلال صوفی، حسن ثاقب، غلام رسول، عبدالباسط، شاہد علی بیگ کے خلاف کارروائی ہو گی۔ جب کہ برطانیہ میں موجود طارق فواد نامی شخص نے براڈشیٹ کا معاملہ شروع کرایا تھا اور اسے بھی قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔
رواں برس جنوری میں وفاقی کابینہ نے براڈشیٹ معاملے کی تحقیقات اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے تعین کے لیے پانچ رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے جسٹس ریٹائرڈ شیخ عظمت سعید کو براڈشیٹ انکوائری کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے ایک ہفتہ قبل حکومت کو جمع کرا دی تھی۔ جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس رپورٹ کو پیش کیا گیا جس کے بعد حکومت نے اسے اب پبلک کر دیا ہے۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے براڈ شیٹ کمیشن رپورٹ کی روشنی میں ماہر قانون احمر بلال صوفی اور دیگر افسران کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
فواد چوہدری کے بقول جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید نے سوئس اکاؤنٹس کا اوریجنل ریکارڈ ریکور کر لیا ہے جس کے بعد سابق صدر آصف زرداری کے خلاف کیس کھولا ۔جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آصف زرداری بری ہوئے تو کہا گیا تھا کہ قومی احتساب کے ادارے (نیب) کے پاس سوئس اکاؤنٹس کا اوریجنل ریکارڈ نہیں لیکن اب حکومت کے پاس یہ ریکارڈ موجود ہے اور قانونی ٹیم اس کا جائزہ لے رہی ہے۔
براڈ شیٹ کمیشن رپورٹ میں ہے کیا؟
براڈ شیٹ کمیشن رپورٹ کے آغاز میں جسٹس شیخ عظمت سعید کی طرف سے اس رپورٹ کی تیاری کے حوالے سے دو صفحات لکھے گئے ہیں جن میں انہوں نے اس کمیشن کی رپورٹ کے لیے سرکاری محکموں کی طرف سے عدم تعاون اور ریکارڈ غائب ہونے کا ذکر کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ریکارڈ کو کئی محکموں حتیٰ کہ دوسرے برِاعظم تک غائب کیا گیا۔
رپورٹ میں براڈ شیٹ کے مرکزی کردار کاووے موسوی کے بارے میں کہا گیا کہ " موسوی ایک سزا یافتہ شخص ہے۔ جس نے بعض شخصیات پر الزامات لگائے۔ موسوی کے الزامات کی تحقیقات کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل نہیں تھی۔ لہذا اس حوالے سے اس رپورٹ میں مواد شامل نہیں۔ البتہ حکومت چاہے تو کاووے "موسوی کے الزامات کی تحقیقات کروا سکتی ہے۔
جسٹس عظمت نے اس رپورٹ کی تیاری میں مختلف پیرائے میں دی جانے والی دھمکیوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ "مارگلہ کے دامن میں رپورٹ لکھتے وقت گیدڑوں کی موجودگی بھی ہوتی تھی، لیکن گیدڑ بھبھبکیاں مجھے کام کرنے سے نہیں روک سکتیں"
ان کاکہنا تھا کہ حکومتی سسٹم کی وجہ سے ملک کی بدنامی اور مالی نقصان بھی ہوا۔ سیاسی دباؤ عام طور پر حکام سے غلط فیصلے کرانے کا باعث بنتا ہے۔
براڈ شیٹ اور نیب اور کمیشن کی فائنڈنگز
براڈشیٹ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں نیب کے قیام سے لے کر بیرونِ ملک اثاثوں کی ملک میں منتقلی اور اس سلسلے میں برطانوی کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا احاطہ کیا ہے۔
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق چوبیس برس قبل 1996 میں بے نظیر بھٹو حکومت کی برطرفی کے بعد نجم سیٹھی قائم مقام کابینہ کے رکن بنے جس کے بعد ملک میں احتساب کے عمل کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی جنہوں نے احتساب بیورو قائم کیا اور سیف الرحمن نے اس کی سربراہی کی۔ اس بیورو پر سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔
براڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے دورِ حکومت میں ہی برطانوی کمپنی 'ٹروونز ایل ایل سی' نے طارق فواد ملک کے ذریعے احتساب بیورو سے رابطہ کیا تھا اور بیرونِ ملک اثاثوں کی چھان بین کے معاملے پر بات چیت کی تھی۔
لیکن اس دور میں بات مشاورت سے آگے نہ بڑھ سکی اور اسی دوران حکومت کی تبدیلی کے بعد لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ سید امجد قومی احتساب آرڈیننس آنے کے بعد پہلے چیئرمین نیب بن گئے۔ اس دور میں چیئرمین کے بعد دوسرا اہم عہدہ پراسیکیوٹر جنرل احتساب کا تھا جو صدر سے مشاورت کے بعد پاکستان فوج کے سابق میجر فاروق آدم خان کو دے دیا گیا تھا۔
اس موقع پر طارق فواد ملک اور غضنفر صادق علی نے نیب سے رابطہ کیا اور 26
مئی 2000 کو جوائنٹ سیکرٹری نیب شاہد حسین راجہ کی طرف سے ایک نوٹ سامنے آیا جس میں انہوں نے بیرون ملک غیر قانونی اثاثوں کی بازیابی کے لیے برطانوی کمپنی 'ٹروونز' کے ساتھ ہونے والا ایک معاہدہ پیش کیا۔
بتایا گیا کہ اس کے بعد فاروق آدم خان کی ہدایت پر معاملات چلتے رہے اور چیئرمین نیب کو بعض دستاویزات دکھائے بغیر معاہدے تیار کیے اور 20 جون 2000 کو براڈ شیٹ ایل ایل سی اور انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری ایل ایل سی کے ساتھ معاہدے طے پاگئے۔ ان معاہدوں کو وزارت قانون و انصاف کی تائید بھی حاصل تھی۔
براڈ شیٹ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ فاروق آدم نے معاہدے کے درست عمل کو ہائی جیک کر لیا تھا اور فاروق آدم نے چیئرمین نیب ہی نہیں ریاست کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچایا۔
رپورٹ میں لکھا گیا کہ فاروق آدم کا بطور پراسیکوٹر جنرل تقرر جنرل امجد کی غلطی تھی۔ فارق آدم پیشہ وارانہ خامیوں اور دیانت داری سے محروم نظر آئے۔ اس وقت کی وزیرِ قانون شاہدہ جمیل نے لکھا کہ معاہدہ کی شرائط ملکی مفاد میں نہیں۔ جب کہ جسٹس ریٹائرڈ شفیع الرحمان نے بھی معاہدے کی شرائط پر تحفظات ظاہر کیے تھے۔ جسٹس شفیع کا کہنا تھا شرائط کی تشریح پاکستان کے لیے مالی نقصان ثابت ہو گی۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ معاہدے کے وقت پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم نے چیئرمین نیب کو اندھیرے میں رکھا۔ چیئرمین سمجھتے رہے کہ ان کے احکامات پر من و عن عمل ہو چکا ہے، حتیٰ کہ سیکرٹری قانون نے بھی وزیرِ قانون کے مکمل جائزے سے پہلے فائل اٹھا لی۔
کمیشن رپورٹ کے مطابق مختلف دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ فاروق آدم نے براڈ شیٹ کو وضاحت دی کہ ہم نے پاکستان کو باندھ دیا ہے۔ لفظ "ہم" اشارہ دیتا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل براڈ شیٹ کے پے رول پر تھے۔
معاہدے کے تحت کیا ادائیگی ہونا تھی؟
براڈ شیٹ اور انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے مطابق بیرونِ ملک موجود کرپٹ سیاست دانوں کے اثاثوں کی جانچ کی جانا تھی اور اس سلسلے میں وہاں سے لوٹی گئی رقم واپس لانے پر 20 فی صد ادائیگی کی جانا تھی۔
اس دوران تحقیقات کے لیے پاکستان کی طرف سے کوئی رقم نہ دی جانا تھی لیکن براڈ شیٹ اور انٹرنشینل ایسٹ ریکوری نے ان معاہدوں کے برخلاف 20 فی صد کے علاوہ آٹھ فی صد مزید بونس کا مطالبہ بھی کیا۔
کمیشن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل
منصور الحق کو امریکہ سے واپس لایا گیا جنہوں نے نیب کے ساتھ پلی بارگین کرلی تھی اور پلی بارگین کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم میں سے براڈ شیٹ کمپنی کو بھی 20 فی صد ادائیگی کی گئی تھی۔
کمیشن کا کہنا تھا کہ ایڈمرل منصور الحق رضاکارانہ طور پر پاکستان آئے تھے اور پاکستان حکومت کے ساتھ پلی بارگین کی گئی لیکن براڈ شیٹ کو اعتماد سازی اور مزید کیسز کی تلاش کی خواہش کے پیش نظر 20 فی صد ادائیگی کی گئی۔
دونوں کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں لکھا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر ہونے والی کسی ریکوری میں انہیں کچھ نہیں دیا جائے گا لیکن کمپنیوں نے معاہدے کی بعض شقوں کی تحریر کی مدد سے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہیں پاکستان میں ہونے والی ریکوری کی رقم بھی ملنا تھی۔
معاہدے ختم کیسے ہوئے؟
اس بارے میں کمیشن کا کہنا ہے کہ جنرل امجد کے بعد سابق گورنر پنجاب لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ خالد مقبول چیئرمین نیب بنے۔ خالد مقبول نے جو بیان کمیشن کے سامنے ریکارڈ کرایا اس کے مطابق بیرونِ ملک سے اثاثے واپس لانے والی کارروائی میں نواز شریف مرکزی کردار تھے۔ لیکن انہیں اچانک سعودی عرب بھجوا دیا گیا جس پر براڈ شیٹ کمپنی اور انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
اس کے بعد آفتاب شیر پاؤ کے حوالے سے جو معلومات براڈ شیٹ کی طرف سے فراہم کی گئیں ان پر تحقیقات جاری تھی کہ اچانک آفتاب شیر پاؤ کو وزیر پانی و بجلی اور اس کے بعد وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔
خالد مقبول کے بعد لیفٹننٹ جنرل منیر حفیظ چیئرمین نیب بنے اور ان کے کمیشن کو دیے گئے بیان کے مطابق دونوں کمپنیوں کے ساتھ معاہدے میں بہت سی باتیں سامنے آئیں جن میں یہ بھی تھا کہ بیرون ملک کے علاوہ ملک کے اندر ریکور کی جانے والی غیر قانونی جائیدادوں میں سے بھی 20 فی صد انہیں دی جانی تھی۔
منیر حفیظ کے بیان کے مطابق "براڈ شیٹ اور ایسٹ ریکوری کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر تھی جس پر ہم نے حکومت کو آگاہ کیا اور اس بارے میں برطانیہ میں پاکستان حکومت کے وکیل کینڈل فری مین سے مشاورت بھی کی گئی۔ اس تمام صورتِ حال میں سال 2003 میں حکومت نے یہ معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد سنگین قانونی نتائج سامنے آئے۔"
معاہدہ کا خاتمہ اور لین دین کے مذاکرات
حکومتِ پاکستان سے معاہدے کے خاتمے کے بعد دونوں کمپنیوں نے یک طرفہ طور پر معاہدہ ختم کرنے پر عدالتوں کا رخ کیا اور سال 2008 تک یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہا۔
اس کے بعد انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری ایل ایل سی کے ساتھ ہونے والی سیٹل منٹ کے تحت انہیں 2.2 ملین ڈالر ادا کیے گئے۔
ایک کمپنی کو ادائیگی کی گئی لیکن دوسری کمپنی کو 1.5 ملین ڈالر کی ادائیگی کی گئی اور جس کمپنی کو یہ رقم فراہم کی گئی وہ اصل براڈ شیٹ تھی ہی نہیں۔
اس غلط براڈ شیٹ کمپنی کو رقم دینے کے معاملے پر کمیشن نے اپنا تفصیلی نوٹ لکھا ہے اور پانچ افراد کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے جن میں وکیل احمر بلال صوفی، حسن ثاقب، غلام رسول، عبدالباسط اور شاہد علی بیگ شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ جیری جیمز نامی شخص کے ساتھ براڈ شیٹ کی سیٹلمینٹ کی بات ہوئی۔ سابق چیئرمین نیب نوید احسن کا کہنا ہے کہ احمر بلال نے جیری جیمز کے ساتھ معاہدے سے متعلق کچھ نہیں بتایا جب کہ احمر بلال صوفی نے اس وقت کے براڈشیٹ کے چیئرمین جیری جیمز سے رابطہ کیا تھا۔
جیری جیمز جس سے پہلا معاہدہ کیا گیا اس کا براڈشیٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ براڈ شیٹ جبرالٹر نام کی ایسی کوئی کمپنی نہیں تھی جس کے ساتھ پاکستان نے کبھی معاہدہ کیا ہو۔
احمر بلال صوفی کے تحریر کردہ ڈرافٹ اور دیگر افسران کی منظوری اور اس وقت کے ڈپٹی ہائی کمشنر برطانیہ عبدالباسط کی موجودگی میں جیری جیمز کو دو اقساط میں 18 لاکھ ڈالر مئی 2008 میں دیے گئے جب کہ پاکستان ہائی کمیشن میں موجود افسر شاہد بیگ نے دونوں چیکس پر دستخط کیے۔
احمر بلال صوفی کے کردار پر سوال
براڈشیٹ کمیشن نے وکیل احمر بلال صوفی کے کردار پر سوال اٹھائے ہیں اور کہا کہ احمر بلال نے تاثر دیا کہ آئی اے آر جیسی سیٹلمنٹ براڈشیٹ سے بھی ممکن ہے۔ براڈشیٹ کو 15 لاکھ ڈالر ادائیگی اخراجات کی تفصیلات فراہم کرنے سے مشروط تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ احمر بلال نے نیب کو بتایا کہ براڈشیٹ کمپنی بند ہو رہی ہے اور سیٹلمنٹ اب نئی کمپنی کے ساتھ کی جائے گی۔،
اس وقت کے چیئرمین نیب نوید احسن بھی براڈشیٹ کمپنی کی تحلیل سے لاعلم تھے۔ براڈشیٹ کے ساتھ سیٹلمنٹ معاہدہ نیب نے جائزے کے لیے وزارتِ قانون کو بھجوایا۔ معاہدے میں جیری جیمز کے براڈشیٹ کے نمائندہ ہونے کی دستاویز شامل نہیں تھی۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ حکومت اور نیب کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ادائیگی کا معاہدہ کس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ احمر بلال صوفی کے ڈرافٹ کیے گئے معاہدے میں نہیں لکھا تھا کہ دوسرا فریق کون ہے۔ اس بارے میں اس وقت کے جوائنٹ سیکرٹری قانون غلام رسول نے معاہدے سے متعلق غلطیوں کا اعتراف کیا ہے۔
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق غلام رسول نے تسلیم کیا کہ نیب سے تصدیق کے لیے متعلقہ دستاویزات نہیں مانگیں اور گاؤں کے پرائمری اسکول ٹیچر کی طرح صرف گرائمر کی غلطیاں درست کیں۔
کمیشن نے اس معاملے میں لندن میں ڈپٹی ہائی کمشنر عبدالباسط کے بارے میں کہا کہ انہوں نے بھی جیری جیمز سے اس کی قانونی حیثیت دریافت نہیں کی۔ معاہدے پر جیری جیمز کے دستخط اس کے اپنے پاسپورٹ پر موجود دستخطوں سے مختلف تھے۔
احمر بلال صوفی کا ردعمل
اس بارے میں بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خود پر عائد الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے صرف سیٹل منٹ سے متعلق معاہدہ تحریر کیا تھا اور حکومت کی جلد بازی کی وجہ سے یہ سب ہوا۔
ان کے بقول "بطور وکیل ہم صرف کلائنٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ مجھے ایسی کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی جس کی وجہ سے کریمنل کیس میں نامزد کیا جارہا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ نیب حکام کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا گیا تھا لیکن حکومت کو بہت جلدی تھی اور انہیں کہا گیا کہ آپ صرف معاہدہ بنا دیں۔ حکومت نے ادائیگی کے لیے کسی وکیل کے بغیر خود دستخط کر کے ادائیگی کر دی تھی۔
احمر بلال صوفی کہتے ہیں جو معاہدہ انہوں نے تیار کیا تھا اس میں بہت سی جگہیں خالی تھیں جنہیں کسی وکیل کی موجودگی میں ہی بھرا جاسکتا تھا لیکن جب اس معاہدے پر دستخط کیے جارہے تھے تو انہیں لندن نہیں بلایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی وکیل اپنے کلائنٹ کی دی گئی گائیڈ لائن اور ہدایات کے مطابق ہی کام کرتا ہے اور تحریری طور پر انہیں جو کام کہا گیا تھا وہ انہوں نے کیا۔
اس سوال پر کہ براڈ شیٹ کمپنی کے تحلیل ہونے کے بارے میں ان پر معلومات چھپانے کا الزام ہے، احمر بلال صوفی نے کہا کہ میں نے اپنے بیان میں تمام معلومات فراہم کی تھیں، اس وقت پاکستانی حکام کو بہت جلدی تھی کہ وہ تمام معاملات کو نمٹائیں جب کہ ان کا تیار کردہ معاہدہ مکمل نہیں تھا۔
احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ اصل ذمہ دار اُس وقت کی حکومت اور نیب حکام ہیں۔ ان کے بقول "میں صرف کونسل تھا اور صرف وہی کر سکتا تھا جس کی مجھے ہدایت دی جائے۔ مجھے کہا گیا کہ مذاکرات کریں اور اس کے بعد ڈرافٹ تیار کرنے کا کہا گیا۔ لیکن ان دونوں کاموں کے بعد مجھے مرکزی ملزم بنانا اور اس کے بعد مجرمانہ کارروائی شروع ہونا سمجھ سے بالا ہے۔"