واشنگٹن —
برونائی نے سخت گیر شرعی قوانین کے مرحلہ وار نفاذ کا اعلان کیا ہے، جس میں سخت قسم کی سزائیں، مثلاً کوڑے لگانا، اعضا کاٹنا اور سنگسار کرنا شامل ہے۔
سلطان حسن البولکیا نےچار لاکھ سے کچھ ہی زائد آبادی والےاس چھوٹے سے جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں سزاؤں کے اس نئے نظام کے اپنائے جانے کو ’ایک بڑی کامیابی‘ قرار دیا ہے۔
جمعرات کو جاری کیے گئے پہلے مرحلے میں، نامناسب رویے کا مظاہرہ کرنے یا نماز جمعہ ادا کرنے میں کوتاہی برتنے پر جرمانے یا قید کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
بہت ہی جلد، مزید سخت تعزیرات لاگو کی جائیں گی، جن میں چوری کے جرم میں اعضا کاٹنے کی سزا یا کوڑے لگانا اور غیر فطری فعل یا ناجائز تعلقات کے جرم پر سنگساری کی حد لاگو کرنا شامل ہیں۔
برونائی کے شریعہ سے متعلق اہل کار جرائم پر تعزیرات کی سزائیں عائد کیے جانے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سزاؤں پر عمل درآمد سے قبل شواہد کے اعلیٰ معیار کی پابندی اور منصفین کی باضابطہ فتویٰ حاصل کرنا لازم ہوگا۔
برونائی کے متعدد شہری، غیر ملکی حکومتیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اِن نئے قوانین کو ’ظالمانہ‘ قرار دیا ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ’قرون وسطیٰ‘ کے دور کی ’ظالمانہ سزاؤں کے نظام کو اپنانے کے مترادف ہے، جس بات کی آج کی اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں کوئی گنجائش نہیں‘۔
برونائی میں الکوہل کی فروخت پر بندش عائد ہے، جب کہ کچھ عائلی امور کے ضمن میں شرعی عدالتیں ہی فیصلہ کر سکتی ہیں، مثلاً شادی بیاہ اور وراثت کے معاملات۔
سلطان حسن البولکیا دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اُنھیں اِس چھوٹے سے ملک پر مکمل کنٹرول حاصل ہے، جو توانائی کے وسائل سے مالا مال ہے۔
بدھ کے روز اپنے خطاب میں، سلطان نے کہا کہ ’نئی تعزیرات مذاق نہیں، بلکہ قرآن میں موجود اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں، جن کی پاسداری لازم ہے‘۔
جن ممالک میں شریعہ قوانین پر عمل درآمد ہوتا ہے، اُن میں شرعی قوانین کی تشریح کے حوالے سے بہت فرق ہے، کیونکہ کوئی ایسی واحد دستاویز موجود نہیں جو اِن کی وضاحت بیان کرے۔
سلطان حسن البولکیا نےچار لاکھ سے کچھ ہی زائد آبادی والےاس چھوٹے سے جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں سزاؤں کے اس نئے نظام کے اپنائے جانے کو ’ایک بڑی کامیابی‘ قرار دیا ہے۔
جمعرات کو جاری کیے گئے پہلے مرحلے میں، نامناسب رویے کا مظاہرہ کرنے یا نماز جمعہ ادا کرنے میں کوتاہی برتنے پر جرمانے یا قید کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
بہت ہی جلد، مزید سخت تعزیرات لاگو کی جائیں گی، جن میں چوری کے جرم میں اعضا کاٹنے کی سزا یا کوڑے لگانا اور غیر فطری فعل یا ناجائز تعلقات کے جرم پر سنگساری کی حد لاگو کرنا شامل ہیں۔
برونائی کے شریعہ سے متعلق اہل کار جرائم پر تعزیرات کی سزائیں عائد کیے جانے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سزاؤں پر عمل درآمد سے قبل شواہد کے اعلیٰ معیار کی پابندی اور منصفین کی باضابطہ فتویٰ حاصل کرنا لازم ہوگا۔
برونائی کے متعدد شہری، غیر ملکی حکومتیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اِن نئے قوانین کو ’ظالمانہ‘ قرار دیا ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ’قرون وسطیٰ‘ کے دور کی ’ظالمانہ سزاؤں کے نظام کو اپنانے کے مترادف ہے، جس بات کی آج کی اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں کوئی گنجائش نہیں‘۔
برونائی میں الکوہل کی فروخت پر بندش عائد ہے، جب کہ کچھ عائلی امور کے ضمن میں شرعی عدالتیں ہی فیصلہ کر سکتی ہیں، مثلاً شادی بیاہ اور وراثت کے معاملات۔
سلطان حسن البولکیا دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اُنھیں اِس چھوٹے سے ملک پر مکمل کنٹرول حاصل ہے، جو توانائی کے وسائل سے مالا مال ہے۔
بدھ کے روز اپنے خطاب میں، سلطان نے کہا کہ ’نئی تعزیرات مذاق نہیں، بلکہ قرآن میں موجود اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں، جن کی پاسداری لازم ہے‘۔
جن ممالک میں شریعہ قوانین پر عمل درآمد ہوتا ہے، اُن میں شرعی قوانین کی تشریح کے حوالے سے بہت فرق ہے، کیونکہ کوئی ایسی واحد دستاویز موجود نہیں جو اِن کی وضاحت بیان کرے۔