’تیزاب چہرے پر پھینکا جاتا ہے اور روح تک جل اٹھتی ہے۔ ‘۔۔’چہرہ شاید پلاسٹک سرجری یا کسی اور جدید ٹیکنالوجی سے بدل دیا جاتا ہو لیکن شخصیت کی بکھرتی کرچیاں کبھی سمیٹی نہیں جاسکتیں۔‘
’آئینہ سچ بولتا ہے ۔۔لیکن اس کے ہر سچ پر روح ،زندگی بھر چھلنی ہوتی رہتی ہے۔‘۔۔ ’موت آتی نہیں ۔۔اور خوشیاں ریت کی طرح بندھ مٹھی سے دبے پاؤں نکل جاتی ہیں۔ ‘
یہ ان خواتین کے بے کراں درد کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو اکثر انتقام لینے کے نتیجے میں تیزاب پھینکے جانے کے واقعات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک، خاص کر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں تو ایسے واقعات عام ہیں ہی، لیکن اب برطانیہ بھی پیچھے نہیں رہا۔
ریشم خان مشرقی لندن میں مقیم ہیں۔ یہ واقعہ ہے پچھلے ماہ جون کی 21 تاریخ کا۔ اس دن ان کی 21 ویں سالگرہ بھی تھی۔ وہ اپنے کزن جمیل مختار کے ہمراہ یونیورسٹی سے گھر واپس آ رہی تھیں کہ راستے میں ایک شخص نے ان کے چہرے پربے دردی سے تیزاب پھینک کر فرار ہو گیا۔ تیزاب سے ریشم کے ساتھ ساتھ جمیل بھی بری طرح جھلس گئے۔
ریشم مانچسٹر میٹ یونیورسٹی میں بزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں، ساتھ ساتھ ماڈلنگ بھی ان کا شوق ہے۔ اس شوق کی ایک بڑی وجہ ان کی خوب صورتی بھی تھی۔
جمیل مختار کا کہنا تھا کہ’’ درد کی شدت اتنی تھی کہ ہم دونوں گاڑی سے نیچے اتر کر مدد تلاش کرنے لگے۔ لیکن 45 منٹ تک کوئی بھی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔پھر ایک شخص اچانک فرشتہ بن کر آیا اور اس نے ہمیں اسپتال پہنچایا۔‘‘
علاج کے دوران جمیل کومہ میں چلے گئے جبکہ ریشم خان کا خوب صورت چہرہ ہمیشہ کے لئے داغ دار بن گیا۔
مناسب علاج اور دیکھ بھال کے سبب ریشم جسمانی طور پر تو صحت یاب ہو رہی ہیں لیکن نفسیاتی طور پر الجھ گئی ہیں۔ اس کا اندازہ ان کے ’فیس بک ‘اور’ ٹوئیٹر‘ اکاؤنٹ پر شیئر کی گئی پوسٹوں سے لگایا جاسکتا ہےجنہیں انگنت افراد’ ری ٹویٹ‘ کر چکے ہیں۔
ریشم خان نے اپنے اوپر گزرنے والی قیامت کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کیا تو برطانوی اخبارات جیسے ’دی سن‘،’ انڈیپنڈنٹ‘،’ مرر‘، ’ہفنگ ٹن پوسٹ‘ ،’ ڈیلی میل‘نے ہی انہیں کوریج نہیں دی بلکہ سعودی اخبار’عرب نیوز‘ اور پاکستانی روزنامے ’ڈی نیوز‘ نے بھی ان پر گزرنے والے واقعے کو شہ سرخیوں میں شائع کیا ہے۔
ریشم نے سوشل میڈیا پر حادثے سے پہلے کی بھی اپنی کچھ تصاویر شیئر کی ہیں۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے اس عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ پھر سے کام شروع کریں گی۔ تعلیم بھی مکمل کریں گی اور وہ ایک بار پھر خوبصورت لگیں گی جس کے بعد سب اچھا ہوجائے گا۔
ریشم کے کزن مختار کا کہنا ہے کہ ریشم پر اعتماد لڑکی ہے ۔ اس برس وہ بزنس شروع کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن اس واقعے کے بعد انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی شناخت چھین لی گئی ہے۔۔ اور انہیں پھر سے اپنی یہ شناخت بنانا ہوگی۔ ‘
دوسری جانب لندن میٹروپولیٹن پولیس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے لیکن ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔اس واقعے سے متعلق پولیس کا کہنا ہے کہ یہ نسلی تعصب پر مبنی حملہ ہے۔