نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے بھارت کی مختلف ریاستوں کے مزدوروں اور کاریگروں پر ایک مرتبہ پھر حملے شروع کردیے ہیں۔ حکام نے ان حملوں میں تیزی کی ذمے داری ایک مرتبہ پھر پڑوسی ملک پاکستان پر عائد کی ہے۔
بھارت کی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے ایک خوانچہ فروش بسوجیت کمار کو عسکری پسندوں نے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو گئے۔ اس سے قبل اختتامِ ہفتہ جنوبی ضلع پُلوامہ کے آری ہل گاؤں میں اُتر پردیش سے تعلق رکھنے والے کارپینٹر محمد اکرم کو مسلح افراد نے نزدیک سے گولیاں مارکر شدید زخمی کردیاتھا۔
مسلح افراد نے ایک درجن سے زیادہ مقامی شہریوں کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تھا۔ ان میں ایک سرکاری اسکول کی سکھ پرنسپل ، اسی اسکول کے ایک کشمیری پنڈت ( برہمن ہندو)اور ایک ادویات فروش کو قتل کیا تھا۔
اقلیتوں کے قتل کے متعدد واقعات کے بعد وادی میں ایک بار پھر خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ پولیس نے خونریزی کے ان واقعات کے لیےمقامی عسکری تنظیم ' دی ریزسٹنس فرنٹ' (ٹی آر ایف) کو ذمے دار ٹھہرایا ہے۔
پولیس حکام کا یہ دعویٰ ہے کہ ٹی آر ایف اصل میں کالعدم لشکرِ طیبہ کا ایک "شیڈو گروپ" ہے ۔ تاہم لشکرِ طیبہ اور ٹی آر ایف نے اس الزام کی بار ہا تردید کی ہے۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ واقعات میں ملوث عسکریت پسندوں میں سے بیشتر کو سیکیورٹی فورسز نے مختلف آپریشنز کے دوران ہلاک کردیا ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کے مطابق غیر مقامی افراد کو نشانہ بنانے کا مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا اور وادیٔ کشمیر میں امن کی بحالی کے لیے کی جانے والی کامیابیوں کو روکنا ہے۔
وادیٔ کشمیر میں نہ صرف غیر مقامی مزدور اور کاریگر ایک بار پھر عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں بلکہ سیکیورٹی اداروں کے لیے خدمات انجام دینے والے مقامی افراد بھی ان کا ہدف ہیں۔
گزشتہ دو ہفتے کے دوران مشتبہ عسکریت پسندوں نے بھارتی فوج اور وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے دو اہل کاروں سمیر احمد ملہ اور مختار احمد دوئی کو ہلاک کردیا تھا۔ دونوں اہل کار چھٹی پر اپنے اپنے گھر آئے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ عسکریت پسندوں نے ولیج سربراہ سمیر احمد بٹ اور شبیر احمد میر سمیت نصف درجن سے زائد افراد کو بھی ہلاک کیا تھا۔
ان واقعات کے نتیجے میں جہاں اقلیتوں میں پیدا شدہ خوف و ہراس سیکیورٹی فورسز کے حکام کے لیے ایک نیا چیلنج ہے وہیں نئی دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اور اس کے مقامی نمائندوں کو حزبِ اختلاف کی شدید نکتہ چینی کا بھی سامنا ہے۔
پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نےالزام عائد کیا ہے کہ کشمیری عسکریت پسندوں کو ان کے پاکستان میں مقیم ذمے داران شہریوں کو ہدف بنانے پر مجبور کررہے ہیں۔
ان کے بقول، "گزشتہ دو ہفتے کے دوران دہشت گردوں کے عزائم ایک بار پھر منظرِ عام پر آگئے ہیں تاہم ان کی کارروائیوں کی عوامی سطح پر مذمت اور مزاحمت ہوئی ہے۔ ان واقعات میں ملوث کئی دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے یا انہیں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کرلیا ہے۔"
وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی سخت کارروائی کی ہدایت
بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے 19 مارچ کو جموں میں سیکیورٹی فورسز، انٹیلی جنس ایجنسیز اور سول انتظامیہ کے افسران کے ایک خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےاس بات پر زور دیا تھا کہ وہ عسکریت پسندوں کے خلاف پیش قدمی کے ذریعے صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے اقدامات کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ انہیں محفوظ پناہ گاہیں اور مالی امداد نہ مل پائیں۔
یہ اجلاس جموں و کشمیر میں پائی جانے والی سیکیورٹی صورتِِ حال کا جائزہ لینے کے لیے بلایا گیا تھا۔
اجلاس سے خطاب کے دوران امیت شاہ کا کہنا تھا کہ علاقے میں سیکیورٹی گرڈ کو مزید مستحکم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے بقول سرحد پار سے در اندازی کو روکا جاسکے اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کے پرامن اور خوشحال جموں و کشمیر کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جاسکے۔
پاکستان نے اس سلسلے میں بھارتی حکومت کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کی بارہا تردید کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں غیر کشمیری محنت کشوں کا قتل، مقامی انتظامیہ اور نئی دہلی میں نریندر مودی حکومت کے لیے ایک نئی پریشانی اور سبکی کا مؤجب بن سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کو ایک بار پھر حزبِ اختلاف کی نکتہ چینی کا ہدف بننا پڑے گا اور حکومت کے لیے اس دعوے کادفاع کرنا مشکل بن جائے گا کہ جموں و کشمیر کے حالات میں پانچ اگست 2019 اور اس کے بعد اٹھائے گیے اقدامات کے نتیجے میں بہتری آگئی ہے۔
غیر مقامی محنت کش کشمیر کیوں آتے ہیں؟
موسم بہار کے آغاز پر بہار، اترپردیش، مغربی بنگال اور مین لینڈ انڈیا کے کئی دوسرے علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد روزگار کی تلاش میں جموں و کشمیر اور لداخ کا رُخ کرتے ہیں ۔
غیر مقامی مزدور تلاشِ معاش کےلیے وادیٔ کشمیر کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ انہیں یہاں ان کے کام کے لیے مقابلتاً زیادہ اجرت وقت پر ملتی ہے اور وہ بھارت کے اکثر مقامات پر جھلسادینے والی گرمی سے بھی بچ جاتے ہیں۔
اس ورک فورس کا جو ایک محتاط اندازے کے مطابق مئی میں اڑھائی سے تین لاکھ نفوس تک بڑھ جاتی ہے تقریباً پچانوے فی صد حصہ نومبر کے وسط میں اپنے گھروں کو لوٹ جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ برس اس ورک فورس کا تقریباً 95 فی صد حصہ مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملوں کے خوف سے وقت سے پہلے ہی وادی چھوڑ گیا تھا اور اب مزدور لوٹ رہے ہیں تو ان پر دوبارہ حملے ہونے لگے ہیں۔
مبصرین کے مطابق بھارتی حکومت کی طرف سے پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے متنازع اقدامات اور اس کے بعد جموں و کشمیر میں ایک کے بعد دوسرے قانون کے نفاذ نے مقامی مسلم آبادی میں ہیجانی کیفیت کو جنم دیا ہے۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو چھوڑ کر تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے جموں و کشمیر اور اس کے عوام کے مفادات کو زک پہنچے گی جب کہ نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا اتحاد حریت کانفرنس بر ملا طور پر یہ الزام لگاتی آئی ہیں کہ ان اقدامات کا مقصد مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت کی حکومت نے 2019 میں آئینِ ہند کی دفعہ 370 کے ساتھ اس کی ذیلی دفعہ35 اے کو بھی منسوخ کر دیا تھا جس کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائیدادیں خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وظائف حاصل کرنے ، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کےمستقل باشندوں کو حاصل تھا۔