رسائی کے لنکس

کیا پاکستان، بھارت کے خلاف ایف 16 استعمال کر سکتا ہے؟ وائس آف امریکہ کی تحقیقاتی رپورٹ


پاکستانی فضائیہ کا ایک لڑاکا ایف 16 طیارہ۔ فائل
پاکستانی فضائیہ کا ایک لڑاکا ایف 16 طیارہ۔ فائل

پاکستان اور بھارت کی حالیہ کشیدگی نے جہاں ایک بار پھر کسی ممکنہ جوہری جنگ کے خدشے کو ہوا دی، وہیں اِس بات پر بھی بحث چھڑ گئی کہ آیا بھارت کے ساتھ 27 فروری کو ہونے والی فضائى جھڑپ میں پاکستان کی جانب سے امریکی ایف سولہ طیارے کے استعمال کا بھارتی الزام درست تھا یا نہیں؟ اور یہ بھی کہ کیا پاکستان کے دفاع کے لیے اہم ان طیاروں کی فروخت کی شرائط پاکستان کو ان کے بھارت کے خلاف استعمال سے روکتی ہیں؟

وائس آف امریکہ کے اسداللہ خالد نے اس بارے میں کچھ تحقیق کی ہے۔

پاکستان کو جدید ایف 16 بی 52 سی ڈی طیاروں کی ایک کھیپ 2010 میں دی گئی جس کے لیے کی گئی ادائگیوں کا کچھ حصہ امریکہ کے ’فارن ملٹری فانینسنگ فنڈ‘ سے دیا گیا تھا۔ اُس وقت پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے امریکی کانگریس میں یہ کہا تھا کہ ’’خطے میں طاقت کے توازن اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لیے پاکستان کی فضائیہ کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے اسے یہ طیارے دینا ضروری ہیں‘‘۔

وی او اے کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق، این پیٹرسن نے واشنگٹن سے یہ بھی کہا تھا کہ ’’کمزور معیشت اور دہشت گردی کے باعث پاکستان نئے طیاروں اور پرانے فلیٹ کی اپ گریڈیشن کے لیے درکار کل رقم دینے سے قاصر ہے۔ لہذا، امریکہ اس ڈیل کو یقینی بنانے کے لیے ’فارن ملٹری فانینسنگ‘ کی مد میں اس ڈیل کے لیے رقم کا کچھ حصہ پاکستان کو دے‘‘۔

پیٹرسن نے اسے پاکستان کی سلامتی اور خطے میں طاقت کے توازن کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے، واشنگٹن کو لکھا تھا کہ ’’اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کی سرزمین کی حفاظت کو اہم سمجھتے ہیں۔ اور اس سے، خطے میں ایٹمی عدم پھیلاؤ کے ہمارے مقاصد کو بھی سپورٹ ملے گی، کیونکہ روایتی ہتھیاروں کی موجودگی پاکستان کو بھارت کے ساتھ کسی تنازعے کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کی طرف جلد راغب نہیں کرے گی‘‘۔

پاکستانی فضائیہ کی شائع شدہ دستاویزات کے مطابق، پاکستان کو اٹھارہ ایف 16 سی ڈی بلاک +52 طیاروں کی ترسیل دسمبر 2010 میں مکمل ہوئی تھی۔ اس کے بارے میں پاکستانی فضائیہ کے اس وقت کے سربراہ راؤ قمر سلیمان نے کہا تھا کہ "پاکستانی فضائیہ ملک کے دفاع کو غیر متزلزل بنانا چاہتی ہے۔" اور، یہ کہ "جب بھی ضرورت پڑے ہم اپنے ہتھیار اور ایف 16 طیارے کسی بھی دشمن کے خلاف اپنی قوم اور اس کی آزادی کے دفاع کے لیے استعمال کر سکیں۔ چاہے وہ دشمن داخلی ہو یا بیرونی۔"

ایف 16 طیاروں کی پاکستانی فضائیہ میں شمولیت کے موقع پر پی اے ایف بیس شہباز پر ہونے والی تقریب میں اس وقت کے ائر چیف مارشل راو قمر سلیمان پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ایف 16 طیارے کا ماڈل نمونہ دیتے ہوئے۔
ایف 16 طیاروں کی پاکستانی فضائیہ میں شمولیت کے موقع پر پی اے ایف بیس شہباز پر ہونے والی تقریب میں اس وقت کے ائر چیف مارشل راو قمر سلیمان پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ایف 16 طیارے کا ماڈل نمونہ دیتے ہوئے۔

مختلف ذرائع کے مطابق، پاکستان کے پاس اس وقت مختلف ماڈلز کے تقریباً 80 ایف سولہ طیارے موجود ہیں۔ ان میں 2016ء میں خریدے گئے جدید نوعیت کے بلاک 52 طیارے بھی شامل ہیں۔ بھارت کا یہ دعویٰ ہے کہ 27 فروری کو پاکستان نے اس کا طیارہ امریکہ سے خریدے گئے ایف سولہ طیارے کے ذریعے گرایا۔

بھارتی فضایہ کے ائر وائس مارشل آر جی کے کپور نے طیارہ گرنے کے بعد 28 فروری کو بھارتی میڈیا کے سامنے یہ بیان دیا تھا کہ ’’ہمارے پاس اس بارے میں کافی ثبوت موجود ہیں کہ اس مشن میں ایف سولہ طیارے استعمال ہوئے تھے۔ اسکے علاوہ ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے ایمرام میزائل کے کچھ حصے بھی راجوڑی کے مشرق سے ملے ہیں۔ یہ میزائل صرف پاکستانی ایف سولہ ہی کیری کرتے ہیں‘‘۔

پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے، آئی ایس پی آر نے ایف سولہ طیاروں کے استعمال کے بھارتی الزام کی تردید کی تھی۔ امریکی ریاست ورجینیا میں مقیم سیکورٹی تجزیہ کار کامران بخاری ’سینٹر فار گلوبل پالیسی‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان یہ کہتا ہے کہ پہلے تو کسی معاہدے میں نہیں لکھا کہ ہم انہیں استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ ضرور ہے کہ یہ ہمیں ملے تھے کاؤنٹر ٹیررزم اور انسرجنسی کے لیے۔ لیکن، ہم پابند نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ بھارت نے ہم پر حملہ کیا ہے ہم نے بھارت پر نہیں‘‘۔

وائس آف امریکہ نے اس بارے میں امریکی محکمہٴ خارجہ سے معلومات حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا۔ لیکن، انہوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔

امریکی محکمہٴ خارجہ کی جانب سے کانگریس کو جمع کرائے گئے ایک خط کے مطابق، بلاک باون ایف سولہ طیارے پاکستان کو انسداد دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کارروائیوں میں مدد کے لیے دیے گئے۔

2016 میں پاکستان نے امریکہ سے ایف 16 طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا جس میں پاکستان ایک بار پھر امریکہ کا ’فارن ملٹری فانینسنگ فنڈ‘ استعمال کرنا چاہتا تھا۔ لیکن، اس بار سینیٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی نے ایسا نہ ہونے دیا اور اس کے چئرمین باب کورکر نے کہا کہ وہ اس فروخت کو نہیں روک رہے۔ لیکن، نئے ایف 16 خریدنے کے لیے پاکستان کو اپنے وسائل سے قیمت ادا کرنا ہو گی۔ اس ڈیل سے پہلے پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر رچرڈ اولسن نے بھی کانگرس کے سامنے تصدیق کی تھی کہ پاکستان کو یہ ایف سولہ طیارے بیچے جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے انہوں نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ ’’اس سے پاکستان ایئرفورس کو ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کے قابل بنایا جا سکے گا اور یہ طیارے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ کرنے کے کام آئیں گے‘‘۔

لیکن، ایمبیسیڈر رچرڈ اولسن کے مطابق، ’’ایسا نہیں ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو یہ اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے دیا ہے‘‘۔ اور، ان کے بقول، ’’یہ پالیسی ہمیشہ سے واضح رہی ہے‘‘۔

وائس آف امریکہ کو ملنے والی دستاویز جو 2016 میں ایف 16 بلاک52 سے متعلق امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے امریکی کانگریس کو جمع کرائی گئیں؛ ان کے مطابق، پاکستان ان طیاروں کا استعمال اپنے دفاع اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے کر سکتا ہے۔ ’ڈیفنس سیکورٹی کوپریشن ایجنسی‘ کی جانب سے فروری 2016ء کو کانگریس کو دیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق، ’’اس فروخت سے خطے میں بنیادی فوجی طاقت کا توازن متاثر نہیں ہو گا‘‘۔ اور ’’یہ ڈیل امریکہ کے خارجہ اور دفاعی امور کے مقاصد کو پورا کرتی ہے، جس کے تحت امریکہ جنوبی ایشیا میں اپنے سٹریٹیجک پارٹنر کی دفاعی صلاحیت کو بہتر بنائے گا‘‘۔

یاد رہے کہ پاکستان کو ان طیاروں کی فروخت سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی مخالفت کے باعث ممکن نہیں ہو سکی تھی۔

لیکن، ایسا کیوں ہے کہ امریکہ پاکستان کو طیارے تو بیچ رہا ہے، لیکن ساتھ ہی ان کے استعمال پر شرائط لگا رہا ہے؟

کامران بخاری کہتے ہیں کہ ’’ہتھیاروں کی خرید و فروخت طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور ملکوں کے طرزِ عمل کو تشکیل دینے کے لیے ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ چاہے گا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات زیادہ خراب ہوں۔ اسلیے اسے توازن رکھنا پڑتا ہے اور اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً امریکہ کمزور ملک کو سپورٹ کرتا ہے۔

لیکن، اب یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا دو ملکوں کے درمیان کشیدگی کے حالات میں یہ ممکن ہے کہ خرید و فروخت کے ان معاہدوں کی شقوں کا نفاذ یقینی بنایا جا سکے؟

XS
SM
MD
LG