|
کینیڈا کی پولیس نے کہا ہے کہ اس نے ایک علیحدگی پسند سکھ لیڈر کے قتل کےشبہے میں تین افراد کو گرفتار کیا ہے، اور وہ زیر حراست افراد اور بھارتی حکومت کے درمیان ممکنہ تعلقات کی تحقیقات کر رہی ہے۔
45 سالہ سکھ لیڈر ہردیب سنگھ نجر کو گزشتہ سال جون میں مسلح افراد نے اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب وہ برٹش کولمبیا کے گردوارہ سے باہر اپنی کار میں تھے۔ کینیڈا نے اس قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے تعلق کا الزام لگایا تھا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔
پولیس نے حراست میں لیے جانے والے افراد کی شناخت تین بھارتی شہریوں کمل پریت سنگھ، کرن برار اور کرم پریت سنگھ کے طور پر کی ہے۔ ان تینوں کی عمریں بیس اور تیس سال کے درمیان ہیں۔
پولیس نے انہیں جمعے کی صبح البرٹا صوبے کے شہر ایڈمنٹن میں گرفتار کیا۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ سال ستمبر میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سکھ رہنما نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے قابل بھروسہ شواہد موجود ہیں۔ جس سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔
بھارت نے نجر پر دہشت گردی سے تعلق کا الزام لگایا تھا لیکن نے اس کے قتل میں اپنے کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ ٹروڈو کے الزام کے بعد بھارت نے کینیڈا سے کہا تھا کہ وہ بھارت میں موجود اپنے 62 سفارت کاروں میں سے 41 کو واپس بلا لے۔
رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے سپرنٹنڈنٹ مندیپ موکر نے جمعہ کو ٹورنٹو میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ تینوں مشتبہ افراد کینیڈا میں غیر مستقل رہائشی کے طور پر رہ رہے تھے۔
اسسٹنٹ کمشنر ڈیوڈ ٹیبول نے کہا کہ کینیڈین حکام بھارت میں اپنے ہم منصبوں سے بات کر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اس تعاون کو ایک چیلنج کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ یہ بہت مشکل کام تھا۔
توقع ہے کہ زیر حراست تینوں افراد کو پیر تک برٹش کولمبیا لے جایا جائے گا جہاں وہ فرسٹ ڈگری قتل اور قتل کی سازش کے الزامات کا سامنا کریں گے۔
ہردیب سنگھ نجر بھارتی نژاد کینیڈین تھے اور وہ ایک پلمبر کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ ایک آزاد سکھ ریاست کی تحریک ’خالصتان کے پر زور حامی اور لیڈر تھے۔ انہوں نے دہشت گردی سے اپنے کسی بھی تعلق کی تردید کی تھی۔
1970 اور 1980 کے عشروں میں جاری رہنے والی خالصتان کی تحریک کے نتیجے میں سکھوں کی ایک خونی شورش نے جنم لیا جس نے شمالی بھارت کی ہلا کر رکھ دیا۔ بھارتی حکومت نے اس تحریک کو طاقت سے کچل دیا، جس میں اہم سکھ رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔
خالصتان کی تحریک اب اپنی زیادہ تر سیاسی قوت سے محروم ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجو بھارتی ریاست پنجاب اور بیرون ملک مقیم سکھوں کی ایک بڑی تعداد اس کی حامی ہے۔
اگرچہ خالصتان کی فعال شورش برسوں پہلے ختم ہو گئی تھی لیکن بھارتی حکومت متعدد بار خبردار کر چکی ہے کہ سکھ علیحدگی پسند اس تحریک کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
فورم