پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر جامشورو میں پولیس نے سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کے خلاف ہنگامہ آرائی کی کوشش اور بغاوت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ طلبہ نے پولیس کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے انکار کیا ہے جب کہ اساتذہ کی تنظیم بھی مقدمے کو طلبہ کو ہراساں کرنے سے تعبیر کر رہی ہے۔
سندھ یونیورسٹی میں 31 اکتوبر کو ایک احتجاج کیا گیا تھا جس کے خلاف جامشورو پولیس نے 18 نومبر کو مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ قوم پرست جماعت کی طلبہ تنظیم جئے سندھ گروپ سے تعلق رکھنے والے کچھ طلبہ نے یونیورسٹی کے کیمپس میں احتجاج کرتے ہوئے حکومت و ریاست مخالف نعرے بازی کی۔
سرکار کی مدعیت میں درج کی گئی اس ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ احتجاج کے ذریعے کیمپس میں فساد، ہنگامہ آرائی اور سیکیورٹی کی صورتِ حال خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔
مقدمے میں 12 طلبہ کو نامزد کیا گیا ہے جب کہ 5 افراد کو نامعلوم قرار دیا گیا ہے۔
تاہم طلبہ نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
مقدمے میں نامزد طلبہ میں سے ایک شعبہ طبیعات کے طالب علم ہالار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی ہاسٹل میں عدم سہولیات پر کئی روز سے احتجاج ریکارڈ کرا رہے تھے۔
ہالار نے بتایا کہ ہاسٹل میں گزشتہ 5 ماہ سے صاف پانی فراہم نہیں کیا جا رہا تھا۔ اس سلسلے میں طلبہ یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی ملے لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی ردِّعمل سامنے نہ آیا تو یونیورسٹی کے گیٹ پر احتجاج اور دھرنا دیا گیا۔
ہالار کے بقول دھرنا دینے پر علاقہ پولیس نے انہیں خطرناک نتائج کی دھمکی دی اور کہا کہ وہ فوری طور پر احتجاج ختم کریں۔ بعد ازاں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ہاسٹل میں سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی جس کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا تھا۔
ہالار کا کہنا ہے کہ اتنے روز بعد مقدمہ درج کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی۔ انہوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا طلبہ تنظیم سے ہے۔
ہالار کے مطابق احتجاج کرنے والے دیگر طلبہ ان کے ساتھی جامعہ سندھ کے مختلف شعبوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔
دوسری جانب جامشورو کی سیشن عدالت نے مقدمے میں نامزد چار طلبہ کی ضمانت منظور کرلی ہے۔ البتہ پولیس کی جانب سے اب تک اس مقدمے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
ادھر سندھ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر اور اساتذہ تنظیم کی رکن ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے کہا ہے کہ 31 اکتوبر کے واقعے کی ایف آئی آر 18 روز بعد درج کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس کی جانب سے طلبہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے جب کہ مقدمے میں شامل کئی طلبہ ایسے ہیں جو آئندہ چند ماہ میں اپنی تعلیم مکمل کرکے جامعہ سے فارغ ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے دعویٰ کیا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ معصوم ہیں اور ان کا احتجاج مکمل طور پر ہاسٹل سے متعلق تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ طلبہ کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر فوری ختم کی جائے۔
سندھ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس معاملے سے متعلق کوئی بھی ردعمل دینے سے گریز کیا ہے۔ البتہ جامعہ کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ طلبہ کے خلاف مقدمے پر جامعہ کی انتظامیہ سے مشورہ نہیں لیا گیا۔
واضح رہے کہ جس سرکاری افسر کی مدعیت میں یہ ایف آئی آر درج کی گئی ہے وہ یونیورسٹی کا سیکیورٹی انچارج ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق ہاسٹل انچارج کا کہنا ہے کہ وہ اس ریاست مخالف احتجاج میں شریک تمام طلبہ کو بخوبی پہچانتے ہیں۔
خیال رہے کہ سندھ یونیورسٹی صوبے کی بڑی سرکاری جامعات میں شمار ہوتی ہے جس میں 65 مختلف شعبوں میں 32 ہزار سے زائد طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور تقریباً 4 ہزار کے قریب طلبہ جامعہ کے ہاسٹلز میں مقیم ہیں۔
جامعہ سندھ میں اساتذہ کی تعداد 800 کے لگ بھگ ہے۔