پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں وکلا کے مبینہ طور پر غیر قانونی چیمبرز گرانے کے معاملے پر ہائی کورٹ پر حملے اور توڑ پھوڑ کے الزام میں وکلا کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ ادھر وکلا کے ایک دھڑے نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملوث وکلا کے خلاف کارروائی پر زور دیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکلا کی ہنگامہ آرائی کے باعث ہائی کورٹ اور ضلع کچہری کو تاحکم ثانی بند کر دیا ہے۔
نامزد 32 وکلا اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف مقدمات میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعہ سات اے ٹی اے سمیت 13 مختلف دفعات شامل کی گئی ہیں۔
وفاقی پولیس نے وکلا کے حملوں پر دو مختلف مقدمات درج کیے ہیں جن میں اسلام آباد پولیس کے ہائی کورٹ کے سیکیورٹی پر مامور عملے کی درخواست پر اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے ساتھ 13 مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں بھی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت پر حملے کے الزام میں 15 وکلا کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
اس مقدمے میں سیکیورٹی افسر کا کہنا ہے کہ ایف ایٹ سے آنے والے وکلا نے گیٹ بند ہونے کی وجہ سے باہر مین روڈ بلاک کی اور زبردستی عدالت کے احاطے میں داخل ہو گئے اور چیف جسٹس بلاک کی طرف آئے۔ عدالت نمبر ایک کو گھیرے میں لے کر نعرہ بازی کی اور گالم گلوچ کرتے ہوئے شدید پتھراؤ کیا۔ چیف جسٹس کو محصور کیا اوران کے گن مین سے سرکاری گن بھی چھین لی۔ اس کے بعد بعض ملازمین کے ساتھ مار پیٹ بھی کی گئی۔
سیکیورٹی افسر نے مقدمہ میں وکلا کے نام بھی دیے ہیں جن میں چار خواتین وکلا بھی شامل ہیں۔
تھانہ مارگلہ میں درج مقدمہ میں بھی 15 وکلا کو نامزد کرتے ہوئے ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کی جانب سے اسلام آباد ضلع کچہری میں وکلا کے چیمبرز گرائے جانے کے خلاف مشتعل وکلا نے پیر کو ہائی کورٹ اور سیشن جج کی عدالتوں کے باہر توڑ پھوڑ کی تھی۔
ہنگامہ آرائی کی وجہ سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ تین گھںٹے سے زائد وقت تک اپنے چیمبر میں محصور رہے۔ وکلا کے ایک گروہ نے جہاں ہائی کورٹ پر حملہ کیا وہیں 70 وکلا پر مشتمل ایک گروپ نے اپنے ہی ساتھیوں کی مذمت کرتے ہوئے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
چیف جسٹس کے چیمبر پر حملہ کیوں ہوا؟
اس حملے کی سب سے بڑی وجہ اتوار اور پیر کی درمیانی رات اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقع ضلع کچہری میں سی ڈی اے اور اسلام آباد انتظامیہ کا وہ آپریشن تھا جس کے نتیجے میں 30 کے قریب نئے تعمیر ہونے والے وکلا چیمبر گرا دیے گئے تھے۔
اس بارے میں ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ سب چیمبر سرکاری زمین پر بنائے گئے تھے اور اس حوالے سے کئی بار بار ایسویسی ایشن کو آگاہ کیا گیا تھا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ لہذٰا وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت کے عین مطابق تجاوزات کے خلاف یہ آپریشن کیا گیا۔
پیر کی صبح وکلا کچہری پہنچے تو ٹوٹے ہوئے چیمبرز دیکھ کر وکلا نے پہلے تو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر محمود خان کی عدالت کے باہر توڑ پھوڑ کی جس کے بعد گاڑیوں میں سوار ہو کر اسلام آباد ہائی کورٹ ہہنچ گئے.
وکلا نے بھرپور نعرہ بازی کی اور چیف جسٹس بلاک پہنچ کر کھڑکیوں کے شیشے توڑنے شروع کر دیے۔ اس کے ساتھ عدالت کے باہر موجود گملے بھی توڑے گئے۔
اس دوران چیف جسٹس اطہرمن اللہ اپنے چیمبر میں محصور ہو کر رہ گئے۔ مشتعل وکلا نے چیف جسٹس کے چیمبر کے دروازے پر جا کر دروازہ کھولنے کی کوشش لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
اس دوران ویڈیو کوریج کرنے پر وکلا نے میڈیا سے بھی تلخ کلامی شروع کردی اور بعض میڈیا ورکرز پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔
حالات کشیدہ ہونے پر پولیس کی اضافی نفری منگوائی گئی اوراسلام آباد ہائی کورٹ کے داخلی و خارجی گیٹ بند کرتے ہوئے سائلین کو بھی آنے سے روک دیا گیا۔ بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر سروس روڈ کو بھی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن کیانی نے احتجاجی وکلا سے مذاکرات کی کوشش کی۔ بعد میں وکلا نے چیف جسٹس سے ملاقات کی تو اس میں بھی ان کا کہنا تھا کہ وکلا کا جو بھی مسئلہ ہے وہ مجھے بتائیں ان کو حل کیا جائے گا لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں۔ اس پر بعض وکلا نے چیف جسٹس کے ساتھ بلند آواز میں بات کی جس پر چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ شاؤٹ نہ کریں۔
وکلا کا مؤقف
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق سی ڈی اے نے اتوار اور پیر کی درمیانی رات غیر قانونی آپریشن کیا۔
وکلا کے بقول چیمبرز مسمار کر کے وکلا کی کتابیں، کمپیوٹر اور قیمتی اشیا چوری کی گئیں اور وکلا کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔
بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ یہ غیرقانونی آپریشن جن لوگوں نے کیا ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس پاکستان اس سارے معاملے کا نوٹس لے کر مسئلے کو حل کریں۔
بیان میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور ضلع کچہری بند کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
وکلا کے اندر دوسرا گروپ
اسلام آباد میں وکلا کی طرف سے عدالت پر حملے کے بعد نوجوان وکلا کا ایک گروپ سامنے آیا ہے جس کا کہنا ہے کہ ہم وکلا کے اس گروہ کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملے کی مذمت کرتے ہیں۔
اس گروپ کا مؤقف ہے کہ عدالت پر حملہ وکالت کے پیشے پر حملہ ہے۔ ایسے واقعات کی صرف مذمت کافی نہیں بلکہ انہیں قانون کے مطابق دیکھنا پڑے گا اور ذمہ داران کو سزا دلوانا ہو گی۔
اس بیان میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری، نوشیروان نیاز، اسفندیار خان، عمر اعجاز گیلانی سمیت 70 نوجوان وکلا کے دستخط موجود ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کا مؤقف
اس بارے میں ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے اسلام آباد کچہری میں وکلا کی طرف سے غیرقانونی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے اور وہاں موجود فٹبال گراؤنڈ پر وکلا نے قبضہ کر لیا ہے اور وہاں اپنے چیمبرز بنا لیے ہیں۔
اس کے علاوہ اب ان کے چیمبرز بعض عدالتوں کے دروازوں تک پہنچ گئے ہیں جس کے بارے میں بار ایسوسی ایشنز سمیت تمام عہدیداروں کو آگاہ کیا گیا لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جس کے بعد باضابطہ نوٹسز جاری کیے گئے لیکن وکلا نے انہیں سنجیدہ نہیں لیا اور اتوار اور پیر کی درمیانی رات یہ آپریشن کیا گیا۔
اس آپریشن کے نتیجے میں نئے تعمیر ہونے والے چیمبر گرائے گئے ہیں اور مزید چیمبرز بھی گرائے جانے منصوبہ ہے اور اس ضمن میں نوٹسز جاری کیے جا چکے ہیں۔
دوسری جانب اس کیس میں گرفتار بعض وکلا کو گزشتہ روز جسٹس محسن کیانی کے حکم کے بعد رہا کردیا گیا ہے اور اس وقت کوئی بھی وکیل پولیس حراست میں نہیں ہے۔