محمد ثاقب
سینیٹ کے چیئرمین کے لئے جوڑ توڑ اور سیاسی اتحاد بنانے کی کوششیں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے متحرک ہوگئی ہیں۔ جبکہ متحدہ خود دھڑے بندی کا شکار ہے۔
ایک جانب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کا وفد جمعرات کے روز ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادر آباد پہنچا اور ایم کیو ایم کے پانچ سینیٹرز کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ذرائع کے مطابق سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں حمایت کرنے پر وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے ایم کیو ایم کو پس پردہ مختلف مراعات دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب جمعے کو گورنر سندھ محمد زبير بھی ایم کیو ایم کے مرکز بہادرآباد گئے ۔ انہوں نے پارٹی کے راہنما خالد مقبول صدیقی سے ملاقات کی اور ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ گورنر سندھ نے اس کے بعد ایم کیو ایم بہادر آبا د سے ناراض ڈاکٹر فاروق ستار سے بھی ملاقات کی۔ اور مسلم لیگ ن کے لئے حمایت کی درخواست کی۔ اس موقع پر گورنر سندھ نے وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کئے گئے کراچی پیکج پر جلد عمل درآمد کی بھی یقین دہانی کرائی۔
ایم کیو ایم کے ایک اور وفد نے مسلم لیگ فنکشنل کے پیر صدرالدین شاہ راشدی سے ملاقات کرکے سینیٹ کے چیئرمین کے لئے صلح مشورے کئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے لئے ایم کیو ایم کے پانچ ووٹوٰں کی تو اہمیت ہے ہی اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں کی کوشش ہے کہ یہ ووٹ انہی کے حمایت یافتہ چیئرمین سینیٹ کے امیدوار کو دیئے جائیں۔ لیکن دوسری جانب ایم کیو ایم کے آپسی اختلافات بھی نمایاں ہیں اور ان میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے گورنر سندھ کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے پارٹی کے بہادر آباد گروپ سے پیپلز پارٹی کے وفد کی ملاقات پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ اگر بہادر آباد گروپ نے ان سے مشاورت کے بغیر چیئرمین سینیٹ کے لئے پیپلز پارٹی کی حمایت کی تو سیاسی طور پر وہ انہیں نہیں چھوڑیں گےـ
ایم کیو ایم کے چار سینیٹرز اس سال 11 مارچ کو ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ ان چار کی جگہ صرف ایک سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم ہی منتخب ہونے میں کامیاب قرار پائے ہیں۔ اس طرح ایوان بالا میں متحدہ قومی موومنٹ کی نشستیں 8 سے کم ہو کر 5 رہ گئی ہیں۔۔ ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کے پانچوں سینیٹرز اسی امیدوار کو چیئرمین سینیٹ کے لئے ووٹ دیں گے جس کی حمایت ان کا گروپ کرے گا۔