بھارت کی ریاست پنجاب کی چنڈی گڑھ یونیورسٹی میں طالبات کی مبینہ نازیبا اور قابلِ اعتراض ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد شروع ہونے والےاحتجاج کا سلسلہ تھم گیا ہے تہم یونیورسٹی میں 24 ستمبر تک کلاسز بند رہیں گی۔
چندی گڑھ یونیوسٹی کے طلبہ نے پیر کی علی الصباح یونیوسٹی انتظامیہ کی جانب سے معافی مانگے جانے کے بعد اپنا احتجاج ختم کر دیا ہے۔
دوسری جانب طالبات کی نازیبا ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پنجاب حکومت نے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
مبینہ طور پر کئی طالبات کی ویڈیوز وائرل ہونے اور طلبہ کے شدید احتجاج کے بعد یونیوسٹی انتظامیہ نے تمام کلاسز 24 ستمبر تک بند کر دی ہیں جس کی وجہ سے ہاسٹل میں مقیم طالبات واپس اپنے گھروں کو چلی گئی ہیں۔
طلبہ کا مطالبہ تھا کہ جن طالبات کی ویڈیوز لیک ہوئی ہیں ان کے بیانات طلبہ رہنماؤں کے سامنے قلم بند کیے جائیں اور انتظامیہ طالبات کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنی ناکامی پر معافی بھی مانگے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انتظامیہ نے ان مطالبات کو تسلیم کر لیا ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ ہفتے کی شب موہالی میں واقع نجی یونیورسٹی کی بعض طالبات کی قابلِ اعتراض ویڈیوز سامنے آنے کے بعد طالبات نے کیمپس میں احتجاج شروع کر دیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج میڈیا کی شہ سرخیاں بن گیا جس پر حکومت بھی ایکشن لینے پر مجبور ہو گئی۔
یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہاسٹل میں مقیم ایک طالبہ نے اپنی قابلِ اعتراض ویڈیوز ہماچل پردیش میں اپنے بوائے فرینڈ کو بھیجی تھیں۔ تاہم یونیورسٹی کے طلبہ نے الزام عائد کیا ہے کہ 60 طالبات کی نہاتے وقت ویڈیوز بنائی گئی تھیں جنہیں لیک کیا گیا۔
طلبہ نے الزام عائد کیا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ سچ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ انتظامیہ کا اصرار تھا ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں کہ کئی طالبات کی ویڈیوز لیک ہوئی ہیں۔
پولیس نے نازیبا ویڈیو وائرل کرنے والی چندی گڑھ یونیوسٹی کی طالبہ اور اس کے بوائے فرینڈ سمیت تین افراد کو حراست میں لے لیا ہے جب کہ یونیوسٹی انتظامیہ نے گرلز ہاسٹل کے دو وارڈنز کو برطرف کر دیا ہے۔
طالبات کی خودکشی کی افواہ
اتوار کو طلبہ کے احتجاج کے دوران یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی تھی کہ نازیبا ویڈیوز کا معاملہ سامنے آنے کے بعد کئی طالبات نے خود کشی کی کوشش کی ہے۔ لیکن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ خود کشی کی کوشش کی خبر میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق اتوار کو طلبہ کے احتجاج اور ہنگامے میں کئی طالبات بیہوش ہو گئی تھیں جنہیں طبی امداد فراہم کی گئی تھی۔
یونیورسٹی کے پر وائس چانسلر ڈاکٹر آر ایس باوا کے مطابق احتجاج کے دوران کسی بھی طالبہ نے خود کشی کی کوشش نہیں کی۔ طالبات اور والدین اس قسم کی افواہوں پر یقین نہ کریں۔
پرووائس چانسلر نے بتایا کہ نازیبا ویڈیو کے معاملے کا مقدمہ درج ہو چکا ہے اور پولیس اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد معلوم ہوا ہے کہ ایک طالبہ نے خود اپنی تصاویر اور ویڈیوز ایک دوست کو بھیجی تھیں اور اس کے موبائل میں مزید کوئی قابلِ اعتراض ویڈیوز نہیں پائی گئیں۔
پنجاب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس گوردیپ دیو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملزم طالبہ نے اپنی ہی ویڈیوز اپنے دوست کو شیئر کی تھیں۔ کسی دوسری طالبہ کی کوئی قابل اعتراض ویڈیو نہیں پائی گئی ہے۔
اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' کے مطابق موہالی کے ایس ایس پی وویک شیل سونی کہتے ہیں چندی گڑھ یونیورسٹی کی دیگر طالبات نے جب اپنی ساتھی طالبہ کی واش روم میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو دیکھی تو وہ گھبرا گئیں اور انہیں شک ہونے لگا کہ کہیں ان کی بھی ویڈیو نہ بنائی گئی ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایک لڑکی اور لڑکا اپنی ویڈیوز شیئر کرتے ہیں اور اسے عام نہیں کرتے تو قانون کے مطابق یہ کوئی جرم نہیں ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے سے ذاتی طور پر شدید تکلیف پہنچی ہے، ہماری بہنیں ہمارے لیے قابلِ فخر ہیں۔ جو بھی قصوروار پایا جائے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔