چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اگر ججز دلائل سننے کے بعد فیصلے نہ دیں تو ان میں اور قاصد میں کوئی فرق نہیں؛ اور یہ کہ ’’ججز کو معاشرے میں عزت اسی لیے ملتی ہے کہ وہ فیصلے کرتے ہیں‘‘۔
لاہور ہائی کورٹ بار ملتان سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں وکلا کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، مگر دوسری جانب معیار گرتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں عدالت میں بدمزدگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جج صاحبان کے پاس کم کیسز ہوتے تھے۔ اس لیے، وکلا کو شکوہ نہیں ہوتا تھا کہ جج نے تسلی سے بات نہیں سنی۔ اب کیسز کی بھرمار کی وجہ سے ججز وکلا کو تسلی سے نہیں سن پاتے۔ ججز کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ فیصلے کر سکیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جج اور وکیل انصاف کی گاڑی کے پہیے ہیں مگر سائل اس گاڑی کا گھوڑا ہے۔ اچھا وکیل ہونے کے لیے تاریخ، ریاضی اور ادب پر عبور ضروری ہے۔ اس لیے ہر کیس میں ایک سینئر وکیل کے ساتھ دو جونیئر ہونے چاہئیں، تاکہ یقینی بنائیں کہ کوئی نوجوان وکیل سینئر وکیل کی تربیت سے محروم نہ رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’’اب کیسز میں التوا صرف دو ہی صورتوں میں ہوگا کہ وکیل صاحب انتقال کر جائیں یا جج صاحب رحلت فرما جائیں‘‘۔
لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ کے ساتھ جڑی اپنی یادوں کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ 1981 میں ہائیکورٹ کے ملتان بنچ میں بطور وکیل پیش ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ’’یہاں استاد اور شاگرد کا رشتہ تھا۔ سب بہت احترام کرتے تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آج حالات وہ نہیں رہے‘‘۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ملتان بنچ سے ان کی کئی یادیں وابستہ ہیں۔ زندگی کے کئی سال ملتان میں گزارے۔ کوئی اپنے گھر آئے تو وہ مہمان نہیں ہوتا۔ اس لیے میں ملتان میں مہمان نہیں ہوں۔
چیف جسٹس، جسٹس آصف سعید کھوسہ آئندہ ماہ اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے پر ریٹائر ہوجائیں گے اور ان کے بعد جسٹس گلزار نئے چیف جسٹس آف پاکستان ہونگے۔
جسٹس کھوسہ کو پاکستان کی تاریخ میں پانامہ اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس سمیت کئی اہم کیسز میں یاد رکھا جائے گا۔