پاکستان کے چیف جسٹس نے پاناما لیکس پر تحقیقات کے لیے حکومت کی طرف سے تجویز کردہ ضابطہ کار کے تحت عدالتی کمیشن تشکیل دینے سے معذوری ظاہر کی ہے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے جمعہ کو ایک خط کے ذریعے وزارت قانون کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کمیشن آف انکوائری قانون کا دائرہ کار بہت محدود ہے اور اس کے تحت بنایا جانے والے کمیشن بے اخیتار ہو گا اور اس سے کوئی مفید مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔
خط میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے تحقیقات کے لیے تجویز کردہ ضابطہ کار کے تحت کمیشن کو تحقیقات مکمل کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی طرف سے کہا گیا کہ مجوزہ کمیشن بنانے یا نا بنانے سے متعلق کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جن افراد، خاندانوں، گروپس اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کی جانی ہیں اُن کی تعداد اور اُن سے متعلقہ کوائف موجود ہوں۔
سپریم کورٹ کے خط میں کہا گیا کہ’’جب تک ایسی معلومات اور کوائف فراہم نہیں کیے جاتے اور کسی مناسب قانون سازی کے تحت کمیشن بنانے کا معاملے پر نظر ثانی کر کے اسے حل نہیں کر لیا جاتا، اس وقت تک حکومت کی درخواست کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے 22 اپریل کو قوم سے اپنے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپوزیشن کے مطالبے کے مطابق پاناما پیپرز سے متعلق حکومت پر لگے الزامات کے تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کو ایک خط لکھ رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے کمیشن کی تشکیل کے ساتھ ساتھ تحقیقات کے لیے ایک ضابطہ کار بھی تجویز کیا گیا تھا، جسے حزب مخالف کی جماعتوں نے مسترد کرتے ہوئے اپنے طور پر متفقہ ضابطہ کار بنایا تھا۔
پاناما دستاویزات میں وزیراعظم نواز شریف کے تین بچوں کے نام سامنے آنے کے بعد حزب اختلاف خصوصاً پاکستان تحریک انصاف نے الزام لگایا کہ وزیراعظم نے اپنے اہل خانہ کی آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس چوری کی اور رقوم بیرون ملک منتقل کیں۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ انہیں چیف جسٹس کی طرف سے اسی فیصلے کی توقع تھی اور اس سے حکومت کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔
’’لازمی بات ہے کہ حکومت کی پوزیشن، ان کو اس سے دھچکا لگا ہے۔ یہ بھی ان کو پتا تھا کہ جب تک آپ سپیشل قانون نہیں بنائیں گے، جیسے پہلے ہوا تھا تو یہ سلسلہ وہ نہیں کر سکیں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ملک میں یہ معاملہ متنازع بن گیا جس سے ان کے لیے بھی ممکن نہیں تھا کہ اس کے اوپر اور آگے بڑھ سکیں اور اتنا وقت دی سکیں کیونکہ اور بھی ان کے کام ہیں، مقدمات ہیں۔ اگر تین جج روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرتے تو بھی ان کا بہت وقت لگ جاتا۔‘‘
آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ جب تک کمیشن بنانے پر قانونی سازی نہیں کی جائے گی اور اپوزیشن کے ساتھ ضابطہ کار پر اتفاق رائے نہیں ہو سکے گا، اس معاملے پر پیش رفت نہیں ہو گی مگر اس میں کچھ وقت لگے گا۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری نے کہا کہ حکومت نے حزب اختلاف کے ہی مطالبے پر پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا مگر اپوزیشن اس معاملے سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
کمیشن کی تشکیل کے لیے قانونی سازی کے حوالے سے انہوں نے کہا
’’اس خط کو بھی دیکھیں گے کہ اگر نئی قانون سازی کی ضرورت ہے، یا پرانی قانون سازی سے ہی بن سکتی ہیں چیزیں۔ تو ہم چیف جسٹس کے اس خط کا جائزہ لینے کے بعد اس معاملے پر اپنا رد عمل ظاہر کریں گے تفصیل سے۔‘‘
گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے تاجکستان سے واپسی پر ہوائی جہاز میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دل سے چاہتے ہیں کہ کمیشن بنے اور حقائق سامنے آئیں مگر اُن کے بقول اپوزیش اس معاملے کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔