رسائی کے لنکس

چارسدہ: ڈھائی سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل، 15 مشتبہ افراد زیرِ حراست


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں ڈھائی سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعے کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پولیس نے واقعے میں ملوث ہونے کے شبہے میں 15 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

واقعے کے خلاف پشاور یونیورسٹی کے طلبہ اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

مظاہرے کے شرکا نے مخالفانہ نعرے لگائے اور حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ واقعے میں ملوث اصل کرداروں کو جلد گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دلوائے۔

مظاہرین میں شامل امین اللہ کنڈی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت اور سرکاری اداروں کی نا اہلی کے باعث خیبر پختونخوا میں بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے عام افراد پریشان ہیں۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ سمیت خیبر پختونخوا کی دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ملزموں کی گرفتاری اور انہیں سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

سیاسی رہنماؤں نے تواتر کے ساتھ ایسے واقعات سامنے آنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

زیرِ حراست افراد کی تعداد 15 ہو گئی ہے: پولیس

دوسری جانب پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈھائی سالہ بچی زینب کے قتل کے واقعے میں مزید سات افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق زیرِ حراست مشتبہ افراد کی تعداد 15 ہو گئی ہے۔ ان تمام افراد سے پوچھ گچھ جاری ہے۔

پولیس کی حراست میں موجود افراد میں قتل کی جانے والی بچی کے قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں۔

چارسدہ کے ڈی ایس پی کا تبادلہ

خیبر پختونخوا کی پولیس کے اعلیٰ افسران اس واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ریجنل پولیس افسر (آر پی او) نے فوری طور پر چارسدہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) اقبال خان کو تبدیل کر کے اُن کی جگہ بشیر خان یوسف زئی کو تعینات کر دیا ہے۔

پولیس عہدیداروں نے بتایا ہے کہ مقتولہ بچی کے ڈی این اے رپورٹ کا انتظار ہے، جس کے آتے ہی وہ اس واقعے میں ملوث ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

جائے وقوع سے ملزم کے بال کے نمونے برآمد

پولیس حکام نے تصدیق کی ہے کہ جائے وقوع سے ملزم کے بال کے نمونے بھی ملے ہیں۔

واضح رہے کہ پشاور سے ملحقہ ضلع چارسدہ کےگاؤں جبہ کورونہ میں منگل کی شب ڈھائی سالہ بچی زینب کی تشدد زدہ لاش ملی تھی۔

لاش ملنے کے بعد مقامی پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ البتہ پولیس نے مبینہ طور پر مزید کارروائی میں عدم دلچسپی ظاہر کی تھی۔ تاہم وزیرِ اعلیٰ کے نوٹس لینے کے بعد جمعرات کو پولیس متحرک ہوئی اور کئی افراد کو حراست میں لیا گیا۔

خیبر پختونخوا میں 'چائلڈ پروٹیکشن یونٹس' غیر فعال کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:21 0:00

پولیس حکام کے مطابق اختر منیر نامی شخص نے چھ اکتوبر کو رات نو بجے رپورٹ درج کراتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ اُن کی ڈھائی سالہ بیٹی زینب دوپہر ایک بجے گھر سے کھیل کود کے لیے باہر گئی تھی اور اس کے بعد سے لاپتا تھی۔

بچی کے والد کا کہنا تھا کہ تلاش کے باوجود بچی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔

تھانہ پڑانگ میں بچی کے اغوا کی رپورٹ درج کی گئی تھی۔پولیس کو اطلاع ملی کہ جبہ کورونہ میں ایک بچی کھیتوں میں مردہ حالت میں پڑی ہے۔ جس کے بعد پولیس حکام مذکورہ مقام پر پہنچے۔ تو تصدیق ہوئی کہ مذکورہ لاش لاپتا بچی کی ہی ہے۔ بچی زینب کی تصدیق کے بعد ڈی این اے کے نمونے خیبر میڈیکل کالج پشاور بھجوائے گئے اور تھانہ پڑانگ میں قتل کا مقدمہ درج کیا۔

چارسدہ پولیس کا مطابق بچی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور میڈیکل ٹیسٹ میں جنسی زیادتی کی تصدیق ہوئی ہے۔

بچی کو قتل کرنے سے پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا: آئی جی پولیس

وزیر اعلیٰ محمود خان کا واقعے کا نوٹس لینے کے فوراََ بعد خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی جمعرات کی شام ہی چارسدہ پہنچے۔

آئی جی پولیس نے اعلیٰ افسران کے اجلاس کی صدارت کی اور متاثرہ خاندان کے افراد سے بھی ملاقات کی۔

میڈیا سے گفتگو میں آئی جی ثنا اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔ ان کے بقول ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کو قتل کرنے سے پہلے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔

ثنا اللہ عباسی نے کہا کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کے بارے میں تفصیلات بتانے سے تفتیش متاثر ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں برس ابتدائی نو ماہ کے دوران بچوں کے خلاف تشدد اور زیادتی کے واقعات میں ملوث 300 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

زینب الرٹ: اغوا شدہ بچوں کی بازیابی کا نظام زینب الرٹ
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:21 0:00

انہوں نے دعویٰ کیا کہ چار واقعات ایسے ہیں جن میں کسی قسم کے شواہد نہیں ملے تھے۔ البتہ پولیس نے جدید سائنسی بنیادوں پر تفتیش کر کے ملزمان کو گرفتار کیا۔

'ایسے واقعات کی اہم وجہ حکومت یا ریاستی اداروں کی کمزوری ہے'

معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر میاں افتخار حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بچوں کے خلاف تشدد اور زیادتی کے واقعات میں اضافے کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں ایک تو بچوں سے جنسی تعلق قائم کرنے والے سرِ فہرست ہیں۔ جب کہ دوسرے وہ لوگ شامل ہیں۔ جو مالی، سماجی، گھریلو یا معاشرتی احساس محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے احساس محرومی کی وجہ سے کمزور افراد بالخصوص بچوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اور اہم وجہ حکومت یا ریاستی اداروں کی کمزوری ہے۔ جب جرم کرنے کے بعد سزا کا خوف ختم ہو جاتا ہے کہ تو عادی مجرم اس قسم کے واقعات کرتے رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ چارسدہ میں حالیہ مہینوں میں کم سن بچی کو جنسی تشدد کے بعد قتل کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ قبل ازیں شب قدر کے علاقے میں ایک کم سن بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا جس کے ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG