چین کی ایک عدالت نے حکام کی حراست میں موجود ایک اہم سیاست دان کی اہلیہ کے خلاف برطانوی تاجر کے قتل کا الزام ثابت ہوجانے پر انہیں موت کی سزا سنائی ہے۔
تاہم عدالت نےاپنے فیصلے میں ملزمہ گو کیلائی کی سزائے موت پر فوری عمل درآمد کا حکم نہیں دیا ہے جس کےبعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا جائے گا۔
گو کیلائی حکمران جماعت 'کمیونسٹ پارٹی' کے سابق رہنما بوژیلائی کی اہلیہ ہیں جن کے خلاف چین کے مشرقی شہر ہیفے کی ایک عدالت میں مقدمے کی سماعت رواں ماہ مکمل ہوگئی تھی جس پر عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
پیر کو عدالتی فیصلے کے اعلان کےبعد عدالت کے ترجمان تانگ یگان نےصحافیوں کو بتایا کہ عدالتی کاروائی کے دوران یہ بات ثابت ہوئی کہ بعض نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہونے کے باوجود ملزمہ کےخلاف فوجداری مقدمہ چلانے کا جواز موجود تھا۔
عدالتی ترجمان کا کہنا تھا کہ ملزمہ اپنے جرم کی نوعیت اور اس کےنتائج سے بخوبی آگاہ تھی۔
یاد رہے کہ مقدمے کی سماعت کےد وران میں گو کیلائی نے استغاثہ کی جانب سے ان کے خلاف عائد کردہ برطانوی تاجر نیل ہے ووڈ کے قتل کے الزامات سے انکار نہیں کیا تھا جس پر مقدمہ کی کاروائی محض چند گھنٹوں میں مکمل ہوگئی تھی۔
گو کیلائی پر ہے ووڈ کو اپنے خاندانی باورچی ژانگ زیائوجن کے ساتھ ساز باز کرکے زہر دینے کا الزام تھا۔ عدالت نے زیائوجن کو بھی قتل میں معاونت کا جرم ثابت ہوجانے پر نو سال قید کی سزا سنائی ہے۔
عدالتی ریکارڈ کےمطابق ملزمہ نے 13 نومبر 2011ء کی شب نیل ہے ووڈ سے اس ہوٹل کے کمرے میں ملاقات کی تھی جہاں مقتول ٹہرا ہوا تھا۔ شراب نوشی کے باعث ہے ووڈ کے مدہوش ہوجانے کے بعد ملزمہ نے مقتول کو وہ زہر دے دیا تھا جو اسے اس کے باورچی نے فراہم کیا تھا۔
دورانِ سماعت گو کیلائی کے وکیلِ صفائی نے موقف اختیار کیا تھا کہ ہے ووڈ کے قتل کی ذمہ داری خود مقتول پر بھی عائد ہوتی ہے۔وکیلِ صفائی کا کہنا تھا کہ ملزمہ نے یہ انتہائی قدم اس خدشے کے تحت اٹھا یا تھا کہ مقتول ان کے درمیان موجود ایک مالی تنازع کے ردِ عمل میں اس کے بیٹے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
عدالتی ترجمان کے مطابق عدالت نے گو کیلائی کے وکلاء کےا س دعوے کو تسلیم نہیں کیا کہ مقتول اس کےبیٹے کی جان لے سکتا تھا۔
ترجمان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ عدالت نے گو کیلائی کی سزائے موت پر فوری عمل درآمد کا حکم اس لیے نہیں دیا کیوں کہ ملزمہ نے دورانِ تفتیش عدالت کو دیگر افراد کی غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور وہ متعلقہ مقدمات کی تفتیش میں بھی مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔
چین کے قانون کے مطابق اگر کسی ملزم کی سزائے موت پر فوری عمل درآمد کا حکم نہ دیا جائے تو دو سال کےبعد سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
عدالتی ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ گو کیلائی اور شریک ملزم ژیانگ کا اپنی سزائوں کےخلاف اپیل دائر کرنے کا ارادہ نہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ مقدمے نے اندرونِ و بیرونِ ملک خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ گو کیلائی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے آغازسے قبل یہ خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ ملزمہ کو مناسب دفاع مہیا نہیں کیا جائے گا اور عوام اور مبصرین کی اکثریت کو یہ بھی یقین تھا کہ عدالت میں گو کیلائی کے خلاف عائد الزامات ثابت ہوجائیں گے۔
مذکورہ مقدمہ ایک ایسے وقت میں عوامی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے جب چین کی حکمران جماعت رواں برس کے اختتام پر قیادت کی تبدیلی کے عمل سے گزرنے والی ہے۔
کئی چینی باشندے سمجھتے ہیں کہ بیجنگ حکام اس مقدمے کو بوکیلائی کے شوہر اور ماضی کے کامیاب سیاست دان بو ژیلائی کا سیاسی کیریئر خراب کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
بوژیلائی ماضی میں حکمران جماعت کے اہم رہنما رہے ہیں لیکن مذکورہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد انہیں ان کے عہدے سے معزول کرکے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
بوژیلائی گزشتہ کئی ماہ سے حکام کی تحویل میں ہیں جس کے دوران میں ان سے ان کی مبینہ بدعنوانی کی تفتیش کی جارہی ہے۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے حکام کو جان بوجھ کر اپنی بیوی کے جرم سے لاعلم رکھا۔
تاہم عدالت نےاپنے فیصلے میں ملزمہ گو کیلائی کی سزائے موت پر فوری عمل درآمد کا حکم نہیں دیا ہے جس کےبعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا جائے گا۔
گو کیلائی حکمران جماعت 'کمیونسٹ پارٹی' کے سابق رہنما بوژیلائی کی اہلیہ ہیں جن کے خلاف چین کے مشرقی شہر ہیفے کی ایک عدالت میں مقدمے کی سماعت رواں ماہ مکمل ہوگئی تھی جس پر عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
پیر کو عدالتی فیصلے کے اعلان کےبعد عدالت کے ترجمان تانگ یگان نےصحافیوں کو بتایا کہ عدالتی کاروائی کے دوران یہ بات ثابت ہوئی کہ بعض نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہونے کے باوجود ملزمہ کےخلاف فوجداری مقدمہ چلانے کا جواز موجود تھا۔
عدالتی ترجمان کا کہنا تھا کہ ملزمہ اپنے جرم کی نوعیت اور اس کےنتائج سے بخوبی آگاہ تھی۔
یاد رہے کہ مقدمے کی سماعت کےد وران میں گو کیلائی نے استغاثہ کی جانب سے ان کے خلاف عائد کردہ برطانوی تاجر نیل ہے ووڈ کے قتل کے الزامات سے انکار نہیں کیا تھا جس پر مقدمہ کی کاروائی محض چند گھنٹوں میں مکمل ہوگئی تھی۔
گو کیلائی پر ہے ووڈ کو اپنے خاندانی باورچی ژانگ زیائوجن کے ساتھ ساز باز کرکے زہر دینے کا الزام تھا۔ عدالت نے زیائوجن کو بھی قتل میں معاونت کا جرم ثابت ہوجانے پر نو سال قید کی سزا سنائی ہے۔
عدالتی ریکارڈ کےمطابق ملزمہ نے 13 نومبر 2011ء کی شب نیل ہے ووڈ سے اس ہوٹل کے کمرے میں ملاقات کی تھی جہاں مقتول ٹہرا ہوا تھا۔ شراب نوشی کے باعث ہے ووڈ کے مدہوش ہوجانے کے بعد ملزمہ نے مقتول کو وہ زہر دے دیا تھا جو اسے اس کے باورچی نے فراہم کیا تھا۔
دورانِ سماعت گو کیلائی کے وکیلِ صفائی نے موقف اختیار کیا تھا کہ ہے ووڈ کے قتل کی ذمہ داری خود مقتول پر بھی عائد ہوتی ہے۔وکیلِ صفائی کا کہنا تھا کہ ملزمہ نے یہ انتہائی قدم اس خدشے کے تحت اٹھا یا تھا کہ مقتول ان کے درمیان موجود ایک مالی تنازع کے ردِ عمل میں اس کے بیٹے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
عدالتی ترجمان کے مطابق عدالت نے گو کیلائی کے وکلاء کےا س دعوے کو تسلیم نہیں کیا کہ مقتول اس کےبیٹے کی جان لے سکتا تھا۔
ترجمان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ عدالت نے گو کیلائی کی سزائے موت پر فوری عمل درآمد کا حکم اس لیے نہیں دیا کیوں کہ ملزمہ نے دورانِ تفتیش عدالت کو دیگر افراد کی غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور وہ متعلقہ مقدمات کی تفتیش میں بھی مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔
چین کے قانون کے مطابق اگر کسی ملزم کی سزائے موت پر فوری عمل درآمد کا حکم نہ دیا جائے تو دو سال کےبعد سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
عدالتی ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ گو کیلائی اور شریک ملزم ژیانگ کا اپنی سزائوں کےخلاف اپیل دائر کرنے کا ارادہ نہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ مقدمے نے اندرونِ و بیرونِ ملک خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ گو کیلائی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے آغازسے قبل یہ خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ ملزمہ کو مناسب دفاع مہیا نہیں کیا جائے گا اور عوام اور مبصرین کی اکثریت کو یہ بھی یقین تھا کہ عدالت میں گو کیلائی کے خلاف عائد الزامات ثابت ہوجائیں گے۔
مذکورہ مقدمہ ایک ایسے وقت میں عوامی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے جب چین کی حکمران جماعت رواں برس کے اختتام پر قیادت کی تبدیلی کے عمل سے گزرنے والی ہے۔
کئی چینی باشندے سمجھتے ہیں کہ بیجنگ حکام اس مقدمے کو بوکیلائی کے شوہر اور ماضی کے کامیاب سیاست دان بو ژیلائی کا سیاسی کیریئر خراب کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
بوژیلائی ماضی میں حکمران جماعت کے اہم رہنما رہے ہیں لیکن مذکورہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد انہیں ان کے عہدے سے معزول کرکے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
بوژیلائی گزشتہ کئی ماہ سے حکام کی تحویل میں ہیں جس کے دوران میں ان سے ان کی مبینہ بدعنوانی کی تفتیش کی جارہی ہے۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے حکام کو جان بوجھ کر اپنی بیوی کے جرم سے لاعلم رکھا۔