رسائی کے لنکس

کیا عام نزلہ زکام کرونا وائرس سے بچاؤ کی وجہ بن سکتا ہے؟


عام سردی کے وائرس rhinovirus 16 کا کمپیوٹر سے بنایا گیا مصنوعی ماڈل
عام سردی کے وائرس rhinovirus 16 کا کمپیوٹر سے بنایا گیا مصنوعی ماڈل

ایک نئی تحقیق کے مطابق ہونے والا عام نزلہ زکام متاثرہ افراد کو کووڈ نائنٹین کے خلاف کچھ تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔

لندن کے امپیریئل کالج کے مطابق اس کی یہ تحقیق مستقبل میں ایسی ویکسین بنانے کے لیے ایک بلیو پرنٹ فراہم کرتی ہے جو کہ کرونا وائرس کی تمام اقسام کے خلاف مدافعت پیدا کر ے گی۔

عالمی وبا کےپھوٹنے کے بعد سائنسدان اب تک سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہےکہ کچھ لوگ طویل عرصے تک ایکسپوز ہونے کے باوجود اس وائرس کے خلاف مزاحمت کر لیتے ہیں جب کہ دوسرے لوگ آسانی سے اس وائرس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔

محققین نے اس مفروضے کو جانچنے پر توجہ مرکوز کی کہ کیا انسانی خون کے سفید خلیات کی ایک قسم جسے ٹی خلیات کہتے ہیں اور جو انسانی جسم میں نزلہ زکام سے لڑنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، کرونا وائرس کے خلاف کچھ تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

سائنسدان جانتے ہیں کہ عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے وائرس موجودہ عالمی وبا کے کرونا وائرس کے دور پار کے کزن ہیں۔ لہذا، زکام سے متاثرہ افراد میں پیدا ہونے والے ٹی سیلز کرونا وائرس کو پہچان کر ان پر حملہ کرسکتے ہیں۔

کرونا وائرس: امریکہ میں تعلیمی اداروں کی دوبارہ بندش کا خطرہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:58 0:00

امپیریئل کالج کے متعدی امراض کے سربراہ، اجیت لالوانی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ محققین نے اسی مفروضے کو ٹیسٹ کیا۔

اس تحقیق کا آغاز ستمبر میں ہوا جب کرونا وائرس کے خلاف ویکسین بھی تیار نہیں ہوئی تھی۔

سائنسدانوں نے ایسے 52 لوگوں کے خون کے نمونے اکٹھے کیے جو کووڈ نائنٹین میں مبتلا لوگوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ یہ نمونے کووڈ نائنٹین سے متاثرہ افراد کے مثبت ٹیسٹ آنے کے فوراً بعد لیے گئے تھے۔

جن لوگوں کے خون کے نمونے لیے گئے تھے ان میں سے صرف نصف تعداد کو کرونا وائرس نے متاثر کیا جبکہ دوسرے افراد اس سے متاثر نہیں ہوئے۔

لالوانی کے مطابق ایسے لوگ جن کے جسموں میں عام زکام کی وجہ سے پہلے ہی سے ٹی خلیے موجود تھے ان ٹی خلیوں نے کرونا کے وائرس کو پہچانا اور اس پر حملہ کیا۔ لہذا، یہ لوگ کرونا وائرس سے متاثر نہیں ہوئے۔

خیال رہے کہ اب تک جو کرونا وائرس سے بچاو کی ویکسین بنائی گئی ہیں ان کا کام کرونا وائرس کے پروٹین کے نوکیلے حصوں کو نشانہ بنا کر ختم کرنا ہے۔ کرونا وائرس کے نوکیلے حصے مدافعت سے بچ کر آسانی سے نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

ان ویکسینز کے مقابلے میں ٹی خلیے وائرس کے اندر کے حصے میں پروٹین کے خلاف کام کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں لالوانی نے کہا کہ وائرس کے اندر پروٹین آسانی سے تبدیل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اس لیے اس تحقیق سے ایک ایسا خاکہ یا بلو پرنٹ ملتا ہے جو ایک یونی ورسل ٹی خلیہ والی ویکیسن بنانے میں مددگار ہو گا اور اس طرح بننے والی ویکسین لوگوں کو موجودہ کرونا وائرس اور اس کی آنے والی قسموں کے خلاف تحفظ فراہم کرے گی۔

لیکن ایسی ویکسین کا بنانا ابھی دور کی بات ہے۔

دریں اثنا، تحقیق کے مصنفوں نے لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اس بات پر انحصار نہ کریں کہ عام زکام کے ہونے سے وہ کووڈ نائنٹین کے خلاف محفوظ ہوگئے ہیں۔

اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ کچھ زکام کرونا وائرس سے ہوتے ہیں جبکہ دوسرے زکام دوسری قسم کے وائرس سے ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو ہر صورت میں ویکسین کی دو خوراکیں اور اس کے بعد بوسٹر کی خوراک لینی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG