برطانوی شاہی جوڑا شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن ان دنوں پانچ روزہ دورے پر پاکستان میں موجود ہیں۔ اس دورے کی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ہر طرف ہے۔ برطانوی شاہی خاندان جب بھی پاکستان آیا ہے اس کا تذکرہ برسوں تک ہوتا رہا ہے۔
کئی حلقوں کا ماننا ہے کہ چوںکہ برصغیر کے عوام تقریباً ایک صدی تک برطانیہ کی حکومت کے زیرِ اثر رہے ہیں لہٰذا وہ شاہی خاندان اور ان کے افراد سے مرعوب ہیں اور کچھ ان سے جذباتی تعلق بھی رکھتے ہیں۔
'ذہنی طور پر مرعوب ہیں'
برطانوی شاہی جوڑے کے لیے پاکستانیوں کی طرف سے والہانہ خوشی کے اظہار کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے معروف تاریخ دان پروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ برطانوی سامراج نے جنوبی ایشیا پر کیا منفی اثرات مرتب کیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران کا کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ انہیں آزادی ہندوؤں سے ملی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سات دہائیوں میں چونکہ تاریخ اور دوسرے سماجی علوم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی عوام میں یہ شعور بیدار کرنے کی کوشش کی گئی کہ برطانوی سامراجی نظام کیا تھا؟
ڈاکڑ طاہر کامران نے کہا کہ پڑھے لکھے پاکستانیوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ 1840 سے قبل ہندوستان میں نہ تو کوئی سرکاری یا سیاسی ڈھانچہ تھا اور نہ ہی کوئی قابلِ ذکر ثقافت، جس پر فخر کیا جا سکے۔
ڈاکٹر طاہر کامران کا کہنا تھا کہ برطانوی دورِ اقتدار کا پاکستانیوں پر اثر یہ ہوا ہے کہ وہ آج بھی انگریزی طرزِ زندگی اور ان کی ثقافت سے ذہنی طور پر مرعوب ہیں اور ایک شخصی شناخت کے فقدان کا شکار ہیں۔
'انگریز کی ثقافت ہماری ثقافت سے بہتر ؟'
عوام میں سامراجیت کے اثرات کیا نسل در نسل بھی مرتب ہوتے ہیں؟ اس بارے میں نامور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نصرت حبیب رانا کا کہنا ہے کہ برطانوی شاہی خاندان کے افراد سے خود کو کسی نہ کسی سطح پر منسلک کر لینا دراصل اسی کلونیل یا سامراجی نفسیات کا حصہ ہے جو ہندوستان پر برطانیہ کی برسوں جاری رہنے والی حکومت کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر مغربی سوچ برصغیر میں پائے جانے والے جاگیردارانہ نظام سے بہتر دکھائی دی جس کی وجہ سے آج تک جنوبی ایشیا کے باشندے انگریز کی ثقافت کو اپنی ثقافت سے بہتر تصور کرتے ہیں۔
'مرعوب رہنا صرف پاکستان تک محدود نہیں'
ماہر نفسیات ڈاکٹر نصرت نے کہا کہ اس سوچ کو بدلنے کے لیے ایک متبادل بیانیہ درکار ہے جو آج سے کئی برس پہلے سامنے آ جانا چاہیے تھا۔
ان کے بقول ماضی کی حاکم قوم یا گروہ سے غیر شعوری طور پر مرعوب رہنا صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ تمام ایسے ممالک میں اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے جہاں سامراجی حاکم مسلط رہے۔
'آزادی برطانوی حکومت سے لی، تاجِ برطانیہ سے نہیں'
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ عوام کے برطانوی شاہی خاندان سے اس خصوصی لگاؤ میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت نے آزادی برطانوی حکومت سے حاصل کی تھی، تاجِ برطانیہ سے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے سرکاری دورے ملکوں کے لیے مثبت ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے بہت سے اہم اور بین الاقوامی مسائل اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے۔
رسول بخش رئیس نے کہا کہ شہزادہ ولیم اور ڈچس آف کیمبرج کیٹ کی آمد سے ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم مسئلے کو دنیا کے سامنے لانے کا موقع ملا جب کہ اس سے پاکستان کی سیاحت اور ثقافت کو بھی فروغ ملنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان ایک ’گلوبل فیملی‘ کا حصہ ہے اور شاہی جوڑے کی آمد سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے۔
پاکستانی کس طرح اپنے تشخص اور قومی بیانیے کو وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں؟ اس بارے میں مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ قومی نفسیات میں کسی بھی قسم کے بدلاؤ کے لیے باقاعدہ حکمت عملی تیار کرنی پڑتی ہے جو ریاست کی ذمہ داری بھی ہے۔ اس حکمت عملی کا براہ راست تعلق بہتر معیار زندگی کی فراہمی، عوام میں تاریخ سے متعلق آگاہی اور حقیقی جمہوری اقدار کو یقینی بنانے سے جڑا ہے۔