واشنگٹن —
جانوروں پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے اخذ کیا ہے کہ ہمارے روزمرہ کے استعمال میں بہت سی چیزوں میں ایک ایسا کیمیائی مادہ پایا جاتا ہے جو انسانوں میں دانتوں کے روغن کو نقصان پہنچاتا ہے۔ BPA نامی یہ کیمیائی مادہ پلاسٹک کی ان بہت سی چیزوں میں پایا جاتا ہے جو ہم روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ بچوں کی خوراک کے ڈبے یا پھر پانی کی بوتلیں وغیرہ۔
سائنسدانوں کے مطابق BPA یا Biphenol A پلاسٹک سے خوراک اور پانی میں پہنچتا ہے اور اس کے ذریعے سے انسانوں تک۔ یہ نہ صرف انسانوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس سے ہمارے ماحول کو بھی نقصان پہنچتا ہے جہاں ہمیں جا بجا پلاسٹک کے تھیلے، برتن اور بوتلیں بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔
امریکہ میں قومی ادارہ ِ صحت کے مطابق، ’جانوروں پر کی جانے والی تحقیق بتاتی ہے کہ BPA سے موٹاپے، موڈ میں تبدیلی، جلد بالغ ہونے، دمہ، دل کی بیماری اور چھاتی کے سرطان جیسے بہت سے عوارض لاحق ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اگر BPA جسم میں داخل ہو جائے تو وہ ان خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے جو دانتوں کا سفید روغن بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دانت کمزور اور نازک ہو جاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا جانوروں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج انسانوں پر بھی اسی طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ اور یہ کہ آیا انسانی دانتوں کو بھی BPA سے اتنا ہی نقصان ہو سکتا ہے جتنا کہ جانوروں کو ہوا؟
سائنسدان کہتے ہیں کہ اسکا امکان موجود ہے۔ چوہے کے دانتوں اور چھ سے آٹھ برس کے بچوں کے دانتوں کی خصوصیات ایک سی ہیں۔ اگر ان بچوں کے جسم میں کیمیائی مادہBPA موجود ہو تو ان بچوں کے دانتوں میں درد ہونے اور کیڑا لگنے کا بہت امکان ہے۔
BPA کے بارے میں انہی خدشات کے پیش ِ نظر پلاسٹک کی ایسی مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں جس میں BPA موجود نہ ہو۔ یورپ نے 2011ء میں بچوں کی خوراک کی ایسی بوتلوں پر پابندی عائد کر دی تھی جس میں BPA موجود ہو۔ امریکہ نے بھی گذشتہ برس جولائی میں اسی نوعیت کے اقدامات اٹھائے تھے۔
فرانس جولائی 2015ء تک ایسی تمام مصنوعات جس میں BPA پایا جاتا ہے، پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق BPA یا Biphenol A پلاسٹک سے خوراک اور پانی میں پہنچتا ہے اور اس کے ذریعے سے انسانوں تک۔ یہ نہ صرف انسانوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس سے ہمارے ماحول کو بھی نقصان پہنچتا ہے جہاں ہمیں جا بجا پلاسٹک کے تھیلے، برتن اور بوتلیں بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔
امریکہ میں قومی ادارہ ِ صحت کے مطابق، ’جانوروں پر کی جانے والی تحقیق بتاتی ہے کہ BPA سے موٹاپے، موڈ میں تبدیلی، جلد بالغ ہونے، دمہ، دل کی بیماری اور چھاتی کے سرطان جیسے بہت سے عوارض لاحق ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اگر BPA جسم میں داخل ہو جائے تو وہ ان خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے جو دانتوں کا سفید روغن بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دانت کمزور اور نازک ہو جاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا جانوروں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج انسانوں پر بھی اسی طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ اور یہ کہ آیا انسانی دانتوں کو بھی BPA سے اتنا ہی نقصان ہو سکتا ہے جتنا کہ جانوروں کو ہوا؟
سائنسدان کہتے ہیں کہ اسکا امکان موجود ہے۔ چوہے کے دانتوں اور چھ سے آٹھ برس کے بچوں کے دانتوں کی خصوصیات ایک سی ہیں۔ اگر ان بچوں کے جسم میں کیمیائی مادہBPA موجود ہو تو ان بچوں کے دانتوں میں درد ہونے اور کیڑا لگنے کا بہت امکان ہے۔
BPA کے بارے میں انہی خدشات کے پیش ِ نظر پلاسٹک کی ایسی مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں جس میں BPA موجود نہ ہو۔ یورپ نے 2011ء میں بچوں کی خوراک کی ایسی بوتلوں پر پابندی عائد کر دی تھی جس میں BPA موجود ہو۔ امریکہ نے بھی گذشتہ برس جولائی میں اسی نوعیت کے اقدامات اٹھائے تھے۔
فرانس جولائی 2015ء تک ایسی تمام مصنوعات جس میں BPA پایا جاتا ہے، پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔