پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے زیارت میں مبینہ طور پر سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں ہلاک ہونے والے افراد کے بارے میں ان کے لواحقین نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہیں تھا بلکہ ان کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں شامل تھا اور انہیں کافی عرصے سے تلاش کیا جارہا تھا۔
زیارت واقعے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کا نام شہزاد بلوچ بتایا گیا ہے ۔ ان کے لواحقین نےگزشتہ دنوں کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرکے سیکیورٹی فورسز پر شہزاد بلوچ کو مبینہ مقابلے میں ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چار جون 2022 کو شہزاد کو کوئٹہ کے علاقے موسیٰ کالونی سے مبینہ طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔
شہزاد کے اہلخانہ کے بقول: "جب شہزاد اور اس کے ایک ساتھی کو لاپتا کیا گیا تو ہم نے اغواء کا مقدمہ درج کرانے کے لیے قریبی تھانے سے رجوع کیا تاہم پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا تھا۔"
انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ شہزاد بلوچ کی بازیابی کے لیے پریس کانفرنس اور احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہزاد بلوچ پولی ٹیکنیک کالج کا ڈگری ہولڈر تھا اگر اس نے کوئی جرم کیا بھی تھا تو اسے عدالت میں پیش کیا جاتا اور عدالت جو بھی سزا دیتی ہمیں قبول تھا۔لیکن ماورائے عدالت کسی کو مبینہ طور پر لاپتا کرکے اس کو قتل کرنا غیر آئینی، غیر قانونی و غیر انسانی عمل ہے۔
زیارت میں جعلی مقابلے کا الزام
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ زیارت میں مبینہ جعلی مقابلے میں شہزاد بلوچ کے علاوہ دیگر چار ایسے افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں جن کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں تھا۔
تنظیم کے چئیرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ پہلے شناخت ہونے والوں میں ایک شخص کا نام شمس ساتکزئی بتایا گیا ہے جنھیں پانچ سال قبل اغواء کیا گیا تھا۔
ان کے بقول، مزید تین ایسے افراد کی شناخت بھی ہوئی ہے جو لاپتا کیے گئے افراد میں شامل تھے۔ ان میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے انجینئر ظہیر بنگلزئی بھی شامل ہیں۔ دیگر دو افراد خضدار کے رہائشی مختار بلوچ اور بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے سالم کریم ہیں۔
زیارت میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد کوئٹہ میں گزشتہ پانچ روز سے لاپتا افراد کے لواحقین کا دھرنا جاری ہے۔دھرنے کے شرکا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیارت کے واقعے کے بعد دیگر لاپتا کیے گئے افراد کے لواحقین کو اپنے پیاروں کی زندگی سے متعلق خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔
سیاسی و سماجی حلقوں کا ردّ عمل
بلوچستان میں انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے زیارت آپریشن میں مبینہ طور پر لاپتا افراد کو دہشت گرد ظاہر کرکے ہلاک کرنے کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زیارت آپریشن میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین پر بھی دباو ڈالا جارہا ہے کہ وہ کسی قسم کے احتجاج یا پریس کانفرنس سے گریز کریں۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ زیارت واقعہ کی تحقیقات جوڈیشل کمیشن سے کرائی جائیں۔ چیف جسٹس بلوچستان کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا جائے تاکہ لوگوں کو انصاف ملے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ نے بھی سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی ہدایت پر زیارت واقعے پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سے ملاقات کی ہے۔
انہوں ںے کہا ہےکہ ان کی جماعت نے وفاقی حکومت سے زیارت میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے پر جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
زیارت میں آپریشن کا پس منظر
بلوچستان کے سیاحتی علاقے زیارت سے رواں ماہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کوئٹہ کے ایک افسر لفٹیننٹ کرنل لئیق مرزا بیگ اور ان کے کزن کو اغوا کیا گیا تھا۔ بعدازاں اغوا ہونے والے افراد کی لاشیں بھی مل گئی تھیں۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق دہشت گردوں کے ایک گروپ نے لیفٹیننٹ کرنل لائق بیگ مرزا اور ان کے کزن عمر جاوید کو قائد اعظم ریزیڈنسی سے واپس کوئٹہ آتے ہوئے ورچوم کے علاقے میں اغوا کیا گیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے ایس ایس جی کے دستوں اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرتے ہوئے سرچ آپریشن شروع کیا تھا۔ اس آپریشن میں 13 اور 14 جولائی کی درمیانی شب فورسز نے دہشت گردوں کے گروپ کو پہاڑی علاقوں میں ایک نالے میں جاتے دیکھاتھا۔ اپنے گرد گھیرا تنگ ہونے کا ا احساس ہونے پر دہشت گرد لیفٹیننٹ کرنل لئیق کو گولی مار کر فرار ہورہے تھے، جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد مارے گئے تھے۔
کالعدم بلوچ عسکریت تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے سیاحوں کے اغوا اور ہلاکت کی ذمے داری قبول کی تھی۔
واقعے کے بعد سیکورٹی فورسز نے زیارت اور نواحی علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے ڈی ایچ اے کے افیسر لیفٹیننٹ کرنل لائق بیگ مرزا اور ان کے کزن کی ہلاکت میں ملوث 9 افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
سیکورٹی فورسز ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فورسز نے اغوا کاروں کے خلاف آپریشن کے دوران 9 دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا جبکہ اس آپریشن میں ان کا ایک حوالدار خان محمد بھی ہلاک ہوگیا تھا۔
ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ سیکورٹی فورسز کی کامیاب آپریشن کے بعد پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد دہشت گردوں نہیں تھے اور انہیں معصوم شہری ظاہر کیا جارہا ہے اور ان کے ناموں کو لاپتا افراد کی فرضی فہرستوں میں شامل کیا جارہا ہے۔
صوبائی حکومت کا موقف کیا ہے؟
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے دعویٰ کیا ہے کہ زیارت میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے گئے حالیہ آپریشن میں ہلاک ہونے والے 9 میں سے 5 افراد کا تعلق ایک دہشت گرد تنظیم سے تھا۔
کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں مشیر داخلہ نے کہا ہے کہ ان افراد کے نام "وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" نامی تنظیم نے اپنی مرتب کردہ فہرست میں شامل کیے تھے۔
انہوں نے کہا ہے کہ زیارت میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن گزشتہ ہفتے زیارت کے قریب لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا اور ان کے کزن کے قاتلوں کے خلاف کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران انٹیلی جنس ایجنسی کا ایک افسر بھی ہلاک ہوا ہے اس معاملے پر ریاست کا مؤقف واضح ہے کیونکہ بہت سے لاپتا افراد ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج، نوشکی اور پنجگور میں سیکیورٹی فورسز پر جن لوگوں نے حملہ کیا ان کے نام بھی تو لاپتا افراد کی فہرست میں شامل تھے۔
تاہم بلوچستان میں لاپتا افراد کے اعداد و شمار جمع کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسننگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ 2021 اور 2022 کے دوران 6 جعلی مقابلے ہوئے جن میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں سیکیورٹی فورسز نے دعوی کیا کہ یہ لوگ دہشت گرد ہیں مگر ان لوگوں کا نام پہلے ہی لاپتا افراد کی فہرست میں شامل تھا۔
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ 2009 میں مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہواجس کے بعد اب تک بلوچستان میں 3500 افراد کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں جن میں سے اکثریت ایسے افراد کی تھی جنھیں ماضی میں لاپتا کیا گیا تھا۔
وائس فار بلوچ مسننگ پرسنز کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں اب تک 6 ہزار سے زائد لوگ لاپتا ہیں جن کی فہرست تنظیم نے مرتب کی ہے۔ اس کے علاوہ اب تک 15 سو سے زائد افراد بازیاب ہو کر اپنے گھر واپس آچکے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں وفاق اور بلوچستان کی حکومتیں لاپتا کیے گئے افراد کی تعداد کو متنازع قرار دیتے رہے ہیں۔