کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فوجی تحویل سے مبینہ فرار کے معاملے پر پشاور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔
یہ درخواست 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کی تنظیم کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
درخواست گزار فضل خان ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے 13 دسمبر 2017 کے حکم نامے میں وفاقی حکومت کو پابند کیا تھا کہ نہ تو احسان اللہ احسان کو رہا کیا جائے اور نہ ہی اُنہیں عام معافی دی جائے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ اُنہیں سوشل میڈیا کے ذریعے علم ہوا کہ احسان اللہ احسان سیکیورٹی اداروں کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ لہذٰا عدالت وفاقی حکومت سے اس بابت وضاحت طلب کرے۔
خیال رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں حملے سے 133 بچوں سمیت 148 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) نے اپنے ترجمان احسان اللہ احسان کے ذریعے قبول کی تھی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے 13 دسمبر کے حکم نامے میں ہدایت کی تھی کہ احسان اللہ احسان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فضل خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ نجی ٹی وی پر احسان اللہ احسان کا انٹرویو نشر ہونے پر اُنہوں نے پانچ مئی 2017 کو پشاور ہائی کورٹ سے رُجوع کیا تھا۔
اس پٹیشن میں وزارتِ دفاع اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو فریق بنایا گیا تھا۔ فضل خان ایڈوکیٹ نے خدشہ ظاہر کیا کہ یوں لگتا ہے کہ احسان اللہ احسان کو منظم منصوبہ بندی کے تحت فرار ہونے کا موقع دیا گیا۔
توہین عدالت کی اس درخواست میں فضل خان ایڈوکیٹ نے وزارتِ دفاع اور تحقیقاتی اداروں کو فریق بنایا ہے۔
حکومت یا سیکیورٹی اداروں کی جانب سے تاحال احسان اللہ احسان کے مبینہ طور پر فرار ہونے کی اطلاع پر باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
احسان اللہ احسان کی فوجی تحویل سے فرار کی خبریں گزشتہ ماہ سامنے آئی تھیں۔ لیکن پاکستان کی فوج نے ان خبروں کی نہ تو تصدیق کی تھی اور نہ ہی کوئی تردید سامنے آئی تھی۔
چند روز سے احسان اللہ احسان کا ایک آڈیو پیغام سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ جس میں وہ پاکستانی فوج کی تحویل سے فرار ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
دو منٹ اور دو سیکنڈ کی اس آڈیو کا آغاز تلاوت سے ہوتا ہے اور وہ اپنا نام بتا کر کہتے ہیں کہ ان کا تعلق تحریک طالبان اور جماعت الاحرار سے تھا۔
انہوں نے کہا کہ "میں نے پانچ فروری 2017 کو ایک معاہدے کے تحت خود کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کیا تھا۔ لیکن، بقول ان کے، "پاکستان کے مکار خفیہ اداروں نے معاہدے سے رُوح گردانی کرتے ہوئے مجھے میرے بچوں سمیت قید کر دیا تھا۔ میں نے تین سال تک معاہدے کی پاسداری کی اور قید کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 11 جنوری 2020 کو میں فوج کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔"
احسان اللہ احسان کون ہے؟
احسان اللہ احسان پاکستان کے خیبر پختونخوا کے علاقے مہمند ایجنسی کے رہنے والے ہیں۔ اپریل 2017 میں پاکستان فوج کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اعلان کیا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر دیا ہے۔ ان کا ایک ویڈیو بیان ٹی وی چینلز کو جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق، ان کا اصلی نام لیاقت علی ہے۔
اپنی ویڈیو میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان میں 2008 میں شمولیت اختیار کی۔ احسان اللہ احسان نے اپنی اعترافی ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے فنڈ مہیا کرتی ہے۔
احسان اللہ احسان 2013 تک کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان رہے تھے۔ احسان تحریک طالبان پاکستان کے بعض سابق کمانڈرز کے ساتھ اس گروپ سے الگ ہو گئے اور انہوں نے جماعت الاحرار کے نام سے اپنا نیا دھڑا بنا لیا تھا۔
احسان اللہ احسان کو اس نئے دھڑے کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے 70 سے 80 فی صد کمانڈر اور جنگجو جماعت الاحرار میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان میں سب سے معروف عمر خالد خراسانی تھا۔