کرونا وائرس کا علاج یا ویکسین موجود نہیں اس لیے دنیا بھر میں لوگ اس سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اربوں افراد لاک ڈاؤن میں گھر پر رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ لیکن، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو وبا کے دنوں میں خصوصی پارٹیاں کر رہے ہیں، تاکہ وہ کرونا وائرس میں مبتلا ہوسکیں۔
امریکہ، برطانیہ، جرمنی، نیدرلینڈز، بیلجیم، آسٹریا اور اسٹونیا میں ایسی تقریبات میڈیا میں آچکی ہیں اور سرکاری حکام نے ان پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
بیلجیم میں 15 مارچ کو سماجی فاصلے کے سرکاری ہدایات پر عمل کا آغاز ہونے سے پہلے کی رات کو متعدد تقریبات کا ہنگامی طور پر اہتمام کیا گیا۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کے نتیجے میں کتنے افراد وائرس میں مبتلا ہوئے، لیکن گزشتہ چھ ہفتوں میں بیلجیم یورپ میں وائرس کے بدترین شکار ملکوں میں شامل ہے۔
19 مارچ کو جرمنی میں پولیس نے بتایا کہ اس نے کئی کرونا وائرس پارٹیوں پر چھاپے مار کے انھیں ختم کروایا۔ ان میں 15 سے 25 سال تک کے نوجوان شریک تھے اور وہ جانتے تھے کہ غلط کام کر رہے ہیں۔ اس کے بعد پولیس سربراہ نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کی ذمے داری لیں اور انھیں ایسے کام سے روکیں۔
آسٹریا میں 21 مارچ کو ایسی ایک پارٹی ہوئی تو اس میں ریاستی اسمبلی کے ایک رکن نے بھی شرکت کی۔ یہ خبر میڈیا میں آںے کے بعد سیاست دان کی اپنی پارٹی اور دوسرے رہنماؤں نے مذمت کی اور انھیں استعفیٰ دینا پڑا۔
اسٹونیا کے شہر ٹارٹو میں 9 اپریل کو ایک ہوسٹل میں پارٹی ہوئی جس کے بعد کم از کم 16 طلبہ کرونا وائرس میں مبتلا ہوئے۔ اس ہوسٹل میں 280 طالب علم مقیم تھے۔ اس کے بعد پولیس نے عمارت کو لاک ڈاؤن کردیا تاکہ طلبہ باہر نکل کر وائرس نہ پھیلا سکیں۔
امریکی ریاست کینٹکی میں 24 مارچ کو نوجوانوں نے ایسی ہی ایک پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ اس کے بعد کم از کم ایک شخص وائرس میں مبتلا ہوا تھا۔
ایسی ہی پارٹیوں کی خبریں ریاست واشنگٹن سے بھی ملیں جس کے بعد گزشتہ روز محکمہ صحت کے حکام نے بیان جاری کیا کہ لوگ ایسی تقریبات میں جانے سے پرہیز کریں۔
ایسی پارٹیوں میں جانے والے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے بعد معمول کی زندگی شروع کر سکیں گے اور دوبارہ بیمار نہیں ہوں گے۔ واشنگٹن کے محکمہ صحت نے بدھ کو ایک ٹوئیٹر پیغام میں اسے برا خیال قرار دیا۔
صحت عامہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ ایک بار کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والا دوبارہ اس میں مبتلا نہیں ہوگا۔ بیماری بگڑ جانے کے امکانات بہرحال پہلی بار بھی موجود ہیں اور اس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔