رسائی کے لنکس

عمران خان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • عمران خان کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ملک کی صرف اصل مقتدرہ یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
  • تحریکِ انصاف کو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مذاکرات کی دعوت دے چکی ہیں۔
  • پی ٹی آئی نے مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔
  • سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں عمران خان خود ہی مذاکرات کی راہ میں حائل ہیں۔ اُنہیں قدرے نرم رویہ اپنانا ہو گا۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کو جب سے قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری کے ذریعے وزارتِ عظمٰی سے ہٹایا گیا ہے، وہ تب سے کسی بھی سیاسی جماعت سے بات کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ عمران خان کے بیانات کے مطابق وہ صرف اصل مقتدرہ یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان میں جاری سیاسی حالات کے سبب ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے بھی عمران خان کو بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر زور دیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے نیب ترامیم کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ وہ سیاسی بات نہیں کرنا چاہتے، مذاکرات سے کئی چیزوں کا حل نکلتا ہے۔

اِسی طرح بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ جب آگ لگی ہو تو نہیں دیکھتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک، پہلے آگ تو بھجائیں۔

اُنہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ حالات خطرناک ہیں تو ساتھی سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں۔

واضح رہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف کو مذاکرات کی دعوت دے چکی ہیں جس کا پی ٹی آئی نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ دنوں ہونے والی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے سخت سیاسی مؤقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سیاسی کشیدگی کم کرنے اور پارلیمان کے اندر اور باہر دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کرنے کی ہدایت کی ہے۔

عمران خان کے مؤقف نے رواں سال عام انتخابات کے نتائج کے بعد سے مزید زور پکڑا ہے۔

جیل جانے سے قبل عمران خان یہ شکوہ بھی کرتے نظر آئے کہ وہ تو بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں آ رہا۔

خیال رہے کہ جمعے کو اڈیالہ جیل میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ ان سے بات کریں گے جن کے پاس طاقت ہے۔ تاہم اُنہوں نے تسلیم کیا کہ اُنہوں نے ماضی میں اُس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ہدایت پر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیے تھے۔

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں عمران خان خود ہی مذاکرات کی راہ میں حائل ہیں۔ اُنہیں قدرے نرم رویہ اپنانا ہو گا۔

تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ بنیادی طور پر عمران خان کا بیانیہ اور اُن کی جماعت کے اندر پر جوش کارکن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

ماضی کا حوالے دیتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ بھٹو کیس میں حفیظ پیرزادہ نے اُنہیں ایک مرتبہ سمجھایا تھا کہ بھٹو کا بیانیہ ہی ان کے گلے میں پڑا ہے۔ اُنہوں نے سوال کیا کہ وہ کیسے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ بھٹو نے کہا کہ وہ بھارت سے سو سالہ جنگ کریں گے اور بعد میں شملہ معاہدہ کر لیا جو کہ ایک متضاد چیز ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اِسی طرح عمران خان کو ڈر ہے کہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ وہ جھکیں گے نہیں اور دوسری طرف مذاکرات کریں گے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اصل اور بڑا رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنی عوام کے پیچھے نہ چلے بلکہ عوام کو اپنے پیچھے چلائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اب اگر پی ٹی آئی مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو اُسے عوام کو اپنے پیچھے چلانا پڑے گا۔ اگر پارٹی کے سخت مزاج کارکنوں کی مرضی کے مطابق چلیں گے تو وہ تو کہتے ہیں کہ فوج اور ملک دونوں سے لڑیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔

سینئر تجزیہ کار چوہدی غلام حسین سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا یہ مؤقف ہے کہ اُن کی جماعت نے برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں کو رواں برس آٹھ فروری کے انتخابات میں شکست دی ہے۔ برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں کو عوام نے مسترد کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں نے بیساکھیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اُن کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا ہے۔ لہذا اِن سے کیا مذاکرات کیے جائیں اور اِن مذاکرات کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہو گا۔ عمران خان کے خلاف جو مقدمات زیرِ سماعت ہیں اُن پر عدالتیں آج نہیں تو کل ریلیف دے دیں گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عدلیہ سمیت سیاسی جماعتیں بھی مذاکرات کا کہہ رہی ہیں لیکن اِن مذاکرات کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ ایجنڈا تو صرف یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے تو عدالتوں کو چاہیے کہ فارم 45 کے حساب سے جس کی جتنی نشستیں بنتی ہیں اُتنی اُس سیاسی جماعت کو دیں۔

چوہدری غلام حسین کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ملک میں مزاحمت ہو گی اور اُس مزاحمت کے بعد کیا ہو گا اِس بارے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔

خیال رہے سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بھی لاہور کے دورہ کے دوران کہا تھا کہ نفرت کو ختم کیا جائے اور درگزر کی پالیسی اختیار کی جائے۔

سابق صدر نے فوج یا اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ تحریک انصاف کے مذاکرات اصل اسٹیک ہولڈرز (یعنی فوج) کے ساتھ ہی ہو سکتے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدی غلام حسین کے مطابق عمران خان کسی سے کیا بات کرے کیونکہ سب نے مل کر پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف سے اُس کا انتخابی نشان بلا واپس لیا۔ انتظامی افسروں نے ملک کر پی ٹی آئی کے ساتھ جو کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ بڑی کرسیوں پر بیٹھنے والے اِن کرسیوں کے مستحق نہیں ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے مؤقف کی تائید پاکستان میں تعینات برطانیہ کی ہائی کمیشن بے بھی کی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان یہ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اصل مذاکرات فوج سے ہونے چاہیئں اور تبدیلی بھی اُنہی سے بات کر کے آ سکتی ہے۔ عمران خان ایک فزیکل تبدیلی چاہتے ہیں۔

سہیل وڑائچ کی رائے میں عمران خان کا مطالبہ یا خواہش یہی ہے کہ موجودہ نظام تبدیل ہو اور اُنہیں اقتدار ملے۔

اُن کا کہنا تھا کہ فوج یہ کیسے کر سکتی ہے کہ وہ ایک حکومت کو لے کر آئیں ہیں، اُنہیں چلا رہے ہیں اور حکومت بھی اُن کی مرضی کے مطابق چل رہی ہے اور ابھی کوئی اختلاف بھی نہیں ہے تو وہ کیسے اُن کی حکومت کو ہٹا دیں؟

نو مئی واقعات کا ایک سال: تحریکِ انصاف پر کیا گزری؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:49 0:00

اُن کا کہنا تھا کہ فوج اور عمران خان کے درمیان ممکنہ مذاکرات میں یہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اِس حد تک تو ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی ایوان میں بیٹھے اور کچھ مبینہ دھاندلی کے حلقوں پر بھی بات ہو جائے لیکن اِس سے زیادہ ریلیف کہ عمران خان کی حکومت آ جائے، یہ ممکن نہیں لگتا۔

پاکستان کی عدالتوں کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو آپس میں بیٹھ کر بات چیت کرنے اور اپنے معاملات خود سلجھانے کے ریمارکس پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئے۔

اِس سے قبل بھی مختلف نوعیت سے سیاسی مقدمات کی سماعت کے دوران جیسے نیب ترامیم کیس اور صوبۂ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے متعلق مقدمات میں بھی پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ ایسے ریمارکس دے چکی ہیں کہ سیاسی جماعتں مل بیٹھ کر اپنے معاملات کو حل کریں۔

چوہدری غلام حسین کی رائے میں ملک میں سیاسی استحکام اُسی صورت آئے گا جب عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے گا۔

ان کے بقول ایوان میں تمام جماعتوں کو اُن کے حقیقی حاصل کردہ ووٹوں کی مناسبت سے نمائندگی دی جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب تک عمران خان اقتدار میں آ کر ناکام نہیں ہو جاتا لوگوں کی نظروں میں اِس ملک میں سیاسی استحکام ناممکن ہے۔

سہیل وڑائچ کی رائے میں اگر عمران خان مذاکرات کرتے ہیں تو جب بھی مذاکرات ہوں گے جب عمران خان پر سے مقدمات کا دباؤ کم ہو گا، ایسا عمومی طور پر ہو ہی جاتا ہے۔ مگر عمران خان اِس ڈیل کی بجائے کسی بڑی ڈیل کے منتظر ہیں۔

عمران خان کے سیاسی مخالفین کہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے حوالے سے ایک ناقابلِ اعتبار شخص ہیں۔ سیاسی مخالفین کی رائے میں عمران خان کب کس وقت اپنی ہی کہی ہوئی بات سے پیچھے ہٹ جائیں، اِس بات کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ کے خیال میں موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ موجودہ وزیراعظم اور موجودہ فوجی قیادت عمران خان کی ڈسی ہوئی ہے جو ڈسا ہوا ہوتا ہے اُس کے تحفظات ہوتے ہیں۔ تینوں میں مشترک بات یہ ہے کہ تینوں ہی عمران خان کے ڈسے ہوئے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ آرمی چیف کو عمران خان نے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کے عہدے سے ہٹایا۔ اُنہیں آرمی چیف بننے سے روکنے کی کوشش کی۔ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ان کی حکومت میں ریفرینس بھیجا گیا۔ اُنہیں پاکستان کی عدلیہ سے ہٹانے کی کوشش کی اور اُن کے خلاف انکوائریاں کرائیں۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ اِسی طرح شہباز شریف کو جیل میں رکھا جس کے باعث اِن تینوں میں یہ ایک قدر مشترک ہے اور یہی قدرِ مشترک عمران خان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے درمیان رکاوٹ بھی ہے اور رکاوٹ کی بنیادی وجہ بھی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے تینوں کا عمران خان کے بارے میں رویہ بھی ایک سا ہے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس چوہدری غلام حسین کے مطابق عمران خان کو جیل میں اب اپنی مشکلات کا کوئی غم نہیں ہے۔

اُن کے مطابق عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی مشکلات سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی عمران خان سے بات چیت کرنا چاہتا ہے تو وہ اعلان کرے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف تمام انتقامی کارروائیوں کو بند کیا جائے۔ جیلوں میں ناحق قید لوگوں کو رہا کیا جائے۔ پاکستان آئین اور قانون کے مطابق چلے۔

XS
SM
MD
LG