پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کی ایک مقامی عدالت نے توہینِ مذہب کے ایک مسیحی ملزم کو سزائے موت سنائی ہے۔
لاہور کی ٹرائل کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج منصور احمد قریشی نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے آصف پرویز کو پھانسی کی سزا سنائی۔
آصف پرویز کے خلاف لاہور کے تھانہ گرین ٹاؤن میں 2013 میں دفعہ 295-سی کے تحت ماسٹر سعید احمد کی مدعیت میں توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ عدالت نے سات سال کے بعد جرم ثابت ہونے پر ملزم آصف پرویز کو سزائے موت سنائی۔
ملزم کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کے مطابق آصف پرویز نے موبائل فون پر ایس ایم ایس کے ذریعے توہینِ مذہب کا ارتکاب کیا۔
ملزم اور مدعی دونوں کپڑے کے ایک ہی مقامی کارخانے میں کام کرتے تھے۔
آصف پرویز کے وکیل سیف الملوک ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مدعی ماسٹر سعید احمد کے مطابق آصف پرویز نے ستمبر 2013 میں مسلسل تین روز اُن کے موبائل فون پر گستاخانہ پیغامات بھیجے۔
سیف الملوک ایڈووکیٹ کے مطابق آصف پرویز گزشتہ سات سال سے جیل میں ہے۔ اِن کے خلاف کوئی قابل ذکر شہادت موجود نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے عدالت میں جو بیان دیا ہے اُس کے مطابق مدعی ملزم کو اسلام قبول کرنے کے لیے کہا کرتا تھا۔
ان کے بقول آصف پرویز اپنا مذہب تبدیل کرنے سے انکار کر دیتے تھے۔ بعد ازاں ماسٹر سعید کے ڈر سے انہوں نے نوکری بھی چھوڑ دی تھی۔
وکیل نے بتایا کہ جس نئی جگہ آصف پرویز ملازمت کرنے گئے تو وہاں ماسٹر سعید بھی آ گئے اور انہیں مذہب تبدیل کرنے کا کہا۔ انکار پر ان کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرانے کی دھمکی دی، اور پھر مقدمہ درج کرا دیا۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کے کیسز میں ٹرائل کورٹ پہلے بھی ملزمان کو سزائیں سناتی رہی ہے۔ تاہم اعلیٰ عدلیہ نے بعض کیسز میں سزاؤں کو ختم بھی کیا ہے۔
گزشتہ سال ملتان کی بہاؤالدین یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ کو مبینہ طور پر توہین مذہب کے ارتکاب کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔ بعد ازاں جنید حفیظ کے والد حفیظ النصیر نے بیٹے کی سزا کو عدالتِ عالیہ میں چیلنج کیا۔
اِس سے قبل مسیحی خاتون آسیہ نورین بی بی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا اور 2010 میں انہیں سزائے موت سنائی گئی۔
گزشتہ سال سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو ثبوتوں کی عدم موجودگی پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
آسیہ بی بی کی رہائی کے عدالتی فیصلے کے خلاف پاکستان میں احتجاج اور مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی توہینِ مذہب کے قوانین کے استعمال کے بارے میں آواز اٹھاتی رہی ہیں۔