سندھ کے سب سے بڑے ضلعے تھرپارکر کی تحصیل ننگرپارکر کی ایک عدالت نے کارونجھر پہاڑی سلسلے میں کٹائی کو عوام کے لیے پریشانی کا سبب قرار دیتے ہوئے اس عمل کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیا ہے۔
پہاڑ کی کٹائی فوج کے انجینئرنگ کے شعبے فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اور ایک نجی کمپنی کی جانب سے کی جا رہی تھی۔
ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق کٹائی کا عمل سندھ کے مائنز اینڈ منرل ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایف ڈبلیو او کو دی گئی ایک لیز کے تحت کیا جا رہا تھا۔
اس حوالے سے کسی بھی باقاعدہ معاہدے کو اب تک منظر عام پر لانے سے اجتناب کیا گیا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر ضلع تھرپارکر کی تحصیل نگرپارکر میں تقریبا 30 مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ عمل علاقے کے لیے بالخصوص اور ملک کے بالعموم خطرے کا باعث ہے۔ عدالت کو معلوم ہوا ہے اس طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ اس کے پیچھے کچھ طاقتور لوگ ہیں تاکہ لوگوں کو اس حوالے سے کوئی قانونی اقدام لینے سے باز رکھا جائے۔
عدالت نے قرار دیا کہ اس بارے میں ریجنل مینیجر ایف ڈبلیو او اور کوہ نور ماربل انڈسٹریز نامی کمپنی نے دھونس اور جبر و استبداد کا مظاہرہ کیا ہے اور اس سے اپنے جیب بھرنے کی کوشش کی ہے۔ جب کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان کا ریاست کے کسی ادارے سے قریبی تعلق ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایف ڈبلیو او اور کمپنی اس حوالے سے لیز ایگریمنٹ، سروے رپورٹ، حدود یا اس قسم کی دستاویزات بھی دکھانے کو تیار نہیں۔ نہ ہی اس سلسلے میں کسی ادارے یا محکمے کا کوئی اجازت نامہ دکھایا جاتا ہے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ کارونجھر پہاڑ صرف پہاڑ ہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ علاقے میں سبزہ پیدا کرنے کا باعث ہے جس سے ادویات کی تیاری کے ساتھ مال مویشی بھی چرتے ہیں۔ جب کہ اس کے ساتھ یہ سلسلہ جنگلی جانوروں کے تحفظ کا بھی فطری ذریعہ ہے۔
عدالت کے مطابق اسی طرح یہ پہاڑی سلسلہ مقامی لوگوں کے لیے کسی حد تک پانی کی فراہمی کا بھی ذریعہ ہے۔ اگر کارونجھر پہاڑوں کی غیر قانونی کٹنگ جاری رہی تو علاقے کے لوگوں کا زندہ رہنے کے لیے اس اہم ذریعے سے بھی محروم ہونے کا اندیشہ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس پہاڑی سلسلہ میں ہندو مت کے کئی مندر ہونے کے ساتھ کئی ثقافتی اور تاریخی ورثے بھی ہیں۔
حکم میں کہا گیا ہے کہ دفاعی لحاظ سے بھی یہ پہاڑی سلسلہ پاکستان اور بھارت کے بارڈر پر واقع ہونے کی وجہ سے دفاعی دیوار کا درجہ رکھتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ریاستی اثاثے کی غیر قانونی کٹائی کا یہ عمل گزشتہ کئی برس سے جاری ہے جو آئین اور مروجہ طریقۂ کار کو بالکل نظر انداز کر کے کیا جا رہا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں اس حوالے سے سپریم کورٹ کے مارگلہ ہلز اسلام آباد میں کٹائی روکنے سمیت دیگر فیصلوں کا بھی حوالہ دیا۔
مقامی آبادی کئی برس سے کارونجھر پہاڑوں کی کٹائی کو روکنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس کے لیے تھرپارکر کے علاوہ کراچی اور اسلام آباد میں بھی کئی بار احتجاج کیا جا چکا ہے۔ البتہ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس احتجاج کے باوجود بھی کام تیزی سے جاری ہے۔
مقامی سماجی کارکن پردیپ گلاب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کارونجھر پہاڑوں کی کٹائی سے علاقے کا ماحولیاتی نظام متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور اس کے کچھ اثرات نظر بھی آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ان کے بقول اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بہت جلد یہاں کا فطری ماحول تباہ اور اس میں رہنے والی نایاب جنگلی حیات ختم ہو سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے مفاد کے لیے اس اہم اثاثے کو فروخت کرکے منافع کمانا چاہتی ہیں۔ کیوں کہ یہ پہاڑ گرینائٹ کے ذخائر سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس سے حاصل ہونے والا قیمتی پتھر تعمیراتی کاموں کے علاوہ فلور ٹائلنگ اور عمارتوں کی خوبصورتی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ اس سے خوبصورت اور دیدہ زیب برتن بھی تیار ہوتے ہیں۔
ایک اور سماجی کارکن راہول دیو نے بتایا کہ اس پہاڑی سلسلے کے معدنیات سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں ہندو مت کے کئی قدیم اور شان دار تعمیر شدہ جین مت کے مندر بھی ہیں۔ جب کہ اس میں 15 ویں صدی میں تعمیر ہونے والی بڈھیسر مسجد بھی موجود ہے جو پتھروں سے بنائی گئی ہے اور اپنے طرز تعمیر کی وجہ سے سیاحوں میں بے حد مقبول ہے۔ جب کہ یہ پہاڑ قدرتی حسن سے بھی مالا مال ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر سے سیاح برسات کے بعد یہاں کا حسن دیکھنے کو آتے ہیں۔
اس حوالے سے صوبائی حکومت کا مؤقف حاصل کرنے کے لیے صوبائی وزیر معدنیات شبیر علی بجارانی سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں پیغام بھی بھیجا گیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
قبل ازیں شبیر علی بجارانی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ صوبائی حکومت گرینائٹ کی مائننگ سے متعلق پالیسی بنانے پر کام کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کارونجھر پہاڑوں میں 26 ارب ٹن گرینائٹ کے ذخائر، قیمتی اور نایاب پتھر موجود ہیں۔ جب کہ صوبائی حکومت کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق کارونجھر کے پہاڑوں میں 24 مقامات کو تاریخی ورثہ قرار دینے پر کام جاری ہے۔
ایک سرکاری افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ علاقہ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع رن آف کچھ وائلڈ لائف سیکنچوری کا حصہ ہے جہاں کٹائی یا اس کی اجازت دینا بھی غیر قانونی ہے۔
اس سرکاری افسر نے دعویٰ کیا کہ یہ اجازت دباؤ کے باعث دی گئی ہے جس پر صوبائی حکومت کی جانب سے بھی کوئی خاص مزاحمت نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کئی عدالتی احکامات اور حکم امتناع ہونے کے باوجود بھی یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
دوسری جانب مقامی سماجی کارکن اور سول سوسائٹی اس علاقے کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دینے کے لیے بھی کوشاں ہیں اور حکومت پر اس کے لیے اقدامات کرنے کے مطالبات کرتے نظر آتے ہیں۔