ایک سال قبل پھوٹنے والی کرونا کی عالمی وبا نے دنیا بھر میں ملازمتوں کے خاتمے یا انہیں تعطل کا شکار کر کے کارکنون کی آمدنی میں تین ٹریلیئن ڈالر کی کمی کی ہے۔
تنخواہوں اور اجرتوں کی صورت میں آمدنی ختم یا کم ہو جانے سے سب سے زیادہ نقصان خواتین، نوجوان اور معاشرے کے غیر محفوظ طبقوں کو اٹھانا پڑا۔
اقوام متحدہ کے مطابق کووڈ نائنٹین کے سبب ہونے والے اقتصادی اور مالی نقصانات کے نتیجے میں اب 23 کروڑ اور 50 لاکھ لوگوں کو انسان دوستی کے تحت امداد کی ضرورت ہے۔
معاشی مسائل کے اژدھے نے معاشرتی سطح پر عدم توازن، بد عنوانی، جھوٹی اطلاعات، نفرت انگیز بیان بازی اور عدم استحکام جیسے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں خواتین اور غیر محفوظ افراد کو بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کا بھی سامنا ہے۔
سیاسی اور امن سازی کے امور کی انڈر سیکرٹری جنرل روز میری ڈی کارلو نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ عالمی وبا نے خاص طور پر گزشتہ چار ماہ میں دنیا کے مسائل میں کئی گنا اضافہ کیا ہے اور اب اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دس کروڑ کے قریب ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی وبا نے اقوام متحدہ کے امن کے قیام اور تنازعات کے حل تلاش کرنے کی کوششوں کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے اور لڑائیوں کی وجوہات میں اضافہ کیا ہے۔
ایسے میں دنیا کے تنازعات میں شامل فریقوں کو جنگ بندی کا اعلان کر کے اس پر کار بند رہنا چاہیے تاکہ اقوام عالم اپنی توجہ کووڈ نائینٹین سے لڑنے پر مرکوز کریں۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری نے کہا کہ ایک طرف تو کرونا کے ماحول میں افغانستان میں امن مذاکرات کے ذریعے جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہوئی لیکن دوسری جانب آرمینیا اور آزربائیجان میں تصادم میں شدت آئی۔
کرونا وائرس کی نئی اقسام کی صورت میں دنیا کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ روز میری کار لو کے بقول نہ صرف یہ کہ نئی اقسام زیادہ مہلک ثابت ہو رہی ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں صحت عامہ کے نظام اس وقت شدید ترین مشکلات سے دو چار ہیں۔