کرونا کی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے زیادہ توجہ اس کے انسداد پررہی اور ویکسینز لگوانے پر زور دیا گیا ، بحث اس پر ہوئی کہ اس کے ڈوز کتنے ہوں گے، کتنی عمر کےبچّوں کے لیے ویکسین لازمی ہے؛ غرض پوری دنیا میں اب تک اس وبائی مرض کے خلاف ویکسین ترجیح اول ہے۔ مگر اس کے ساتھ طبّی سائنس دان اس کے شافی اور یقینی علاج کے لیے بھی سرگرداں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر مرض کے اسباب معلوم ہوں تو اس کے انسداد کے ساتھ اس کے علاج کے طریقے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
اس دوران اس مرض کے علاج کے لیے مختلف ادویات تجویز ہوتی رہیں، کچھ مسترد کر دی گئیں اور کچھ کا استعمال اب بھی کیا جا رہا ہے۔بعض دوا ساز کمپنیوں نے اس کے علاج کے لیے نئی ادویات پر تحقیق بھی شروع کر رکھی ہے۔
اسی سلسلے میں کینیڈا اور برازیل کے طبّی سائنس دانوں نے کرونا کے علاج کے لیے اب تک استعمال کی جانے والی ادویات پر نئے سرے سے آزمائشی تجربات کا منصوبہ شروع کیا ہے ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ان ادویات کو دوبارہ استعمال کرا کے یہ پرکھا جائے کہ ان میں سے کون سی دوا بہتر ہے یا چند ادوایات کا مرکب موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
اس آزمائشی تجربے کا نام ہے " ٹو گیدر ٹرائل" یعنی اس کے علاج کے کئی طریقوں یا ادویات کو بیک وقت آزمایا جائے۔ اس طرح خرچ بھی کم آئے گا، وقت کی بچت ہوگی اوراس کے ٹرائل کے لیے زیادہ لوگ بھی درکار نہیں ہوں گے۔
سرکاری فنڈنگ کے جھمیلوں سے بچنے کے لیے اس پراجیکٹ کے سلسلے میں نجی اداروں، یونی ورسٹییوں اور نجی شعبے سے مالی مدد لی جا رہی ہے۔ جون 2020 میں برازیل میں ہونے والے ایک طبی ٹرائل میں ایک مسکن دوا فلوووکسامائین کے فوائد سامنے آئے اور بتیس فی صد مریضوں کے مرض کی شدت کم رہی اور وہ ہسپتال جانے سے بچ گئے۔
اونٹیریوکی میک ماسٹر یونی ورسٹی میں متعدی امراض کے ماہر ایڈ ملز وینکور،کینیڈا میں اسی طرح کے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ دواوں کا ٹرائل دیگر مادلز سے ذرا مختلف ہے ۔ وی اواے سے بات کرتے ہوئے انہوں بتایا کہ عام ٹرائل میں چند افراد کو فرضی گولی دی جاتی ہے ، جبکہ چند کو اصلی اور پھران کے اثرات کو جانچا جاتا ہے۔ مگر ہمارے اس نئے ماڈل میں بعض اوقات ایک جانب پانچ،چھ ادویات اور دوسری طرف فرضی گولیاں۔ ایک گروپ کو ایک دوا زیادہ راس آئی تو دوسرے گروپ کو ایک اور دوا۔ ان ٹرائلز کے نتائج کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور یہ معلوم کیا جاتا ہے کس دوا کا کتنا اثر ہوا اور کس کا بالکل نہیں۔
اومیکرون ویرینٹ کے پھیلنے کے بعد اسی پراجیکٹ کے تحت نئے ٹرائلز شروع ہو گئے۔ جنوبی افریقہ، پاکستان اور برازیل میں تقریباً پانچ ہزاررضا کاراس میں حصّہ لیں گے، اب تک ڈھائی ہزار کے قریب لوگوں پر اسی ماڈل کے تحت ٹرائل جاری ہیں۔
ملز کا کہنا ہے کہ تحقیق کار مختلف ادویات پر تجربے کر رہے ہیں اور ان کی تاثیر کو پرکھ رہے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ طے ہو جاتا ہے کہ تھوڑا تھوڑا فائدہ دو دواوں کا ہو رہا ہے تو پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیوں نہ ان دونوں دواوں کا ایک ساتھ استعمال کیا جائے، اس طرح کرونا کے علاج کے لیے دوا سستی بھی ہو گی اور آسانی سے بہت سے ملکوں میں دستیاب بھی ہو گی۔ ملز کا خیال ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں اس سلسلے مزید پیش رفت ہو گی۔
وینکور، کینیڈا کے متعدی امراض کے مرکز کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر برائن کونوے کہتے ہیں کہ "ٹو گیدر ٹرائل" مستقبل میں طبّی تحقیق کے لیے ایک اچھا ماڈل ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے اس طرح تیار ہونے والی نئی ادویات کی باقاعدہ منظوری کا عمل توخاصا طویل اورسخت ہوتا ہے، مگرجہاں تک کہ اس ماڈل پر تحقیق کرنے کی بات ہے تو اس پرجلد پیش رفت ممکن ہے۔
ڈاکٹر کونوے اس پراجیکٹ سے منسلک نہیں ہیں ، مگر وہ اس ماڈل سے متاثر ضرور ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے پروگراموں سے غیر ثابت شدہ ادویات کے بارے میں غیرمستند افواہوں کا بھی توڑ ہو سکے گا۔ ہم ایسی صورت حال سے بھی بچ سکیں گے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم نے فلاں دوا دس مریضوں کو دی اور ان کو بہت افاقہ ہوا، اس لیے آپ بھی یہی دوا استعمال کرائیں۔ مگر یہ سائنسی طریقہ نہیں ہے۔ طبّی علاج اس طرح نہیں ہونا چاہیے، خاص طور سے کووڈ کے علاج کے سلسلے میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے۔
ملز کا یہ خیال ہے کہ اس سلسلے میں ترقی پذیر ملکوں سے ترقی یافتہ ملکوں کے طبّی سائنس دان بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ ہمیں وبائی امراض کے بارے میں زیادہ علم ہو، مگر دوسری طرف ان اصولوں کا استعمال تو ترقی پذیر ملکوں میں زیادہ ہو رہا ہے۔ ایبولا، ملیریا یا ایڈز کے بارے میں روانڈا کا عملی تجربہ بہت زیادہ ہے اور ہمیں ان جیسے ملکوں کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے۔