بھارت میں ایک بار پھر کرونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نومبر کے بعد پہلی بار یہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران 16 ریاستوں میں کرونا سے متاثرہ زیرِ علاج افراد کی تعداد صحت یاب ہونے والوں سے زیادہ پائی گئی۔
ریاست مہاراشٹرا اور کیرالہ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ لیکن اب پنجاب، جموں و کشمیر، چنڈی گڑھ، راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور گجرات میں بھی کیسز بڑھ رہے ہیں۔
وزارتِ صحت کے مطابق بھارت میں کرونا کے مجموعی کیسز کی تعداد ایک کروڑ، 10 لاکھ، 16 ہزار 434 تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 10 ہزار 584 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔
مجموعی کیسز کے 74 فی صد کیسز صرف مہاراشٹرا اور کیرالہ میں ہیں۔
وزارتِ صحت کے مطابق ملک کی کل 36 ریاستوں میں سے 16 میں کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ 15 فروری کے بعد سے کیسز زیادہ بڑھے ہیں۔
مہاراشٹرا کے امراوتی، اکولہ،بلڈھانہ، یوتمال، واشم، ناگپور، پونے، تھانے اور دیگر مقامات پر جزوی پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ ان شہروں میں شام پانچ بجے سے صبح نو بجے تک تجارتی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔
امراوتی شہر میں سات دن کے لیے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ اودھو ٹھاکرے اور میونسپل کارپوریشن کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اگر حالات بہتر نہیں ہوئے تو ممبئی سمیت متعدد علاقوں میں پھر سے لاک ڈاؤن لگا دیا جائے گا۔
مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں بھی جزوی پابندیاں لگا دی گئیں۔ بعض علاقوں میں حکم امتناعی نافذ ہے۔
محکمۂ صحت کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ کیسز میں اضافہ، ممکن ہے کہ کرونا وائرس کے اپنی فطرت بدلنے کی وجہ سے ہو رہا ہو۔
امراوتی میں ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ارچنا پاٹل کے مطابق متاثرہ علاقوں سے نمونے پونے کے لیب میں بھیجے گئے ہیں۔ 10 دن کے بعد نتائج سامنے آئیں گے۔
ممبئی کی ایک غیر سرکاری تنظیم 'پرواز فاؤنڈیشن' کی صدر اور کرونا واریئر ایوارڈ یافتہ سعدیہ مرچنٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کرونا کیسز میں اضافے کی ایک وجہ لوگوں کی بد احتیاطی بھی ہے۔
ان کے مطابق جب وہ لوگوں کو احتیاط برتنے کو کہتے ہیں تو لوگوں کا جواب ہوتا ہے کہ وہ کب تک گھروں میں بیٹھے رہیں گے۔ ان کو گھر چلانے کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے بسیں اور لوکل ٹرینیں چلا دی ہیں۔ ان میں بھیڑ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی تو کرونا بڑھ رہا ہو گا۔
سعدیہ کہتی ہیں کہ ہم لوگ پولیس والوں کے تعاون سے لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ ٹھیک ہے روزگار بہت ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری احتیاط ہے۔ باہر ضرور نکلیے لیکن ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال بھی کیجیے۔ ان کے مطابق لوگ ان کے مشوروں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
ان کے مطابق لوگوں کو اب بھی اس بیماری کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بیماری ہونی ہو گی تو ہو جائے گی۔ سبھی کہتے ہیں کہ جو قسمت میں لکھا ہے وہ تو ہو گا۔
میونسپل کارپوریشن کے اہلکاروں کے مطابق بعض مقامات پر رہائشی اپارٹمنٹس سیل کر دیے گئے ہیں۔ لیکن اب بھی بعض علاقے ایسے ہیں جو زیادہ متاثر نہیں ہیں۔
سعدیہ مرچنٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے ویکسین لگانے کا جو عمل شروع کیا ہے وہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کے بارے میں لوگوں کو تحفظات ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ ویکسین میں بعض ایسی اشیاء ملائی گئی ہوں گی جو ان کے لیے جائز نہیں۔ اسی لیے لوگوں کی دلچسپی ویکسین میں کم ہے۔
ان کے مطابق لوگوں سے گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کرونا کیسز میں اتنا اضافہ نہیں ہو رہا ہے جتنا کہ حکومت بتا رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید ویکسین کے تعلق سے عوام میں دلچسپی پیدا کرنے اور انہیں مطمئن کرنے کے لیے وہ کرونا کیسز میں اضافے کی ہوا بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسی کے ساتھ ملک میں ویکسین لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران چھ لاکھ 38 ہزار افراد کو ویکسین دی گئی۔ جب کہ مجموعی طور پر ایک کروڑ 17 لاکھ 45 ہزار سے زیادہ لوگوں کو ویکسین دی جا چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق صحت عامہ کے کارکنوں میں بھی ویکسین کے تعلق سے تحفظات ہیں۔ اسی لیے ویکسین لگانے کا عمل سست رفتاری کا شکار ہے۔ حکومت کے محکمہ صحت کو اس بات پر تشویش ہے۔