رسائی کے لنکس

پاکستان میں صحافیوں کے قتل کیسز میں سزا کی شرح صرف چار فی صد ہے: رپورٹ


پاکستان میں آزادیٔ صحافت اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کے اُمور سے متعلق غیر سرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 10 برسوں کے دوران ملک میں صحافیوں کے قتل میں ملوث صرف چار فی صد ملزمان کو سزا مل سکی ہے۔

اس رپورٹ کا اجرا دنیا بھر میں دو نومبر کو صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے قتل جیسی سنگین وارداتوں میں 96 فی صد مقدمات میں ملزمان سزاؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سزا سے استثنیٰ کا یہ تصور صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کا بنیادی سبب ہے۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم "رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز" (آر ایس ایف) کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال کی نسبت آزادیٔ اظہار میں کافی کمی دیکھی گئی جس کی وجہ سے اس کی عالمی رینکنگ 180 ممالک کی فہرست میں 145 سے مزید کم ہوکر 157 ہو چکی ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں مزید کیا ہے؟

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010 سے 2022 کے دوران 53 پاکستانی صحافیوں کو قتل کیا گیا لیکن قتل کے ان 53 واقعات میں سے صرف دو میں مجرموں کو سزا مل سکی۔ بقیہ 96 فی صد مقدمات میں ملک کا عدالتی نظام ہلاک ہونے والے صحافیوں اور ان کے سوگوار خاندانوں کو انصاف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔

رپورٹ کے مطابق ان53 صحافیوں میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں سندھ میں 16 صحافیوں کی ہوئیں جو کل واقعات کا 30 فی صد بنتا ہے۔ اس کے بعد صحافیوں کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے جہاں 14صحافی مارے گئے، یوں یہاں صحافیوں کے قتل کے 26 فی صد واقعات رونما ہوئے۔

رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ قتل سے قبل جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے والے صحافیوں میں سے 10 فی صد سے بھی کم نے اپنے میڈیا آجروں، پریس کلب، یونین یا مقامی حکام کو آگاہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ ان معاملات میں بھی جہاں پیشگی انتباہ دستیاب تھا، نظام اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز صحافیوں کے تحفظ میں ناکام رہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو تہائی سے زیادہ مقدمات میں قانونی نظام کو لاگو کرنے کا عمل سوگوار خاندانوں پر ہی چھوڑ دیا گیا تھا جس سے انصاف کے حصول کے معاملے کو ایک خاندان کا معاملہ بنا دیا گیا۔ میڈیا تنظیمیں یا آجر، جن کی جانب سے صحافیوں نے حفاظت کے خطرات مول لیے تھے، کبھی بھی ہلاک ہونے والے صحافیوں کو انصاف دلانے کے عمل میں فریق نہیں بنے۔

میڈیا ہاؤسز، اداروں اور پولیس کی صحافیوں کے قتل میں عدم دلچسپی

"انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس" کے پاکستان میں نمائندے اور صحافی غلام مصطفیٰ کہتے ہیں کہ صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث ملزمان اس لیے بچ جاتے ہیں کیوں کہ میڈیا ہاؤسز یا صحافتی ادارے ایسے مقدمات کی پیروی سے گریز کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آج تک کوئی ایک بھی میڈیا ہاؤس یا ادارہ اپنے مقتول صحافی کے قتل کے مقدمے میں مدعی نہیں بنا۔ اس لیے ان کی دلچسپی کم ہونے کی وجہ سے ایسے کیسز میں اکثر ملزمان سزا سے بچ نکلتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ان مقدمات میں پولیس کی تفتیش کا طریقۂ کار انتہائی سست، فرسودہ ہوتا ہےجس کی وجہ سے عدالت میں کمزور کیس پیش کیا جاتا ہے۔

"فریڈم نیٹ ورک" کی رپورٹ کے مطابق پولیس کی جانب سے صحافیوں کے قتل کے آدھے بھی کم مقدمات عدالت میں پہنچے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل کیے جانے والے ہر دوسرے صحافی کے لیے انصاف کی دوڑ اس ابتدائی مرحلے میں ہی ختم ہو جاتی ہے۔

صحافیوں کے تحفظ کے لیے قوانین بن گئے، عمل درآمد ہونا باقی

وفاقی اور سندھ حکومتوں نے حال ہی میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے جامع قوانین کو قانون کا حصہ بنایا ہے جس پر صحافتی تنظیموں کی جانب سے کافی حد تک اطمینان ظاہر کیا گیا تھا۔ تاہم صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد ہونا اب بھی باقی ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کہتے ہیں کہ صحافیوں کے خلاف جرائم، خاص طور پر صحافیوں کے قتل میں استثنیٰ کا خاتمہ، ملک میں حال ہی میں نافذ کیے گئے صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کے لیے ٹیسٹ کیس ہیں۔

جرائم کا شکار اکثر صحافی انصاف کے منتظر

بہت سے صحافی جو خود جبری گمشدگی، اغوا اور تشدد جیسے واقعات کا شکار ہوئے، ان میں سے بیشتر انصاف کے حصول کے لیے نا امید نظر آتے ہیں۔

صحافی اور مصنف وارث رضا کو ستمبر 2021 میں کراچی میں واقع ان کے گھر سے بغیر وارنٹ اٹھالیا اور کئی گھنٹے تفتیش کے بعد صحافتی تنظیموں کے شدید احتجاج کے بعد ہی ان کی رہائی ممکن ہوسکی تھی۔

حراست میں لیے جانے سے ایک روز قبل اُنہوں نے روزنامہ ایکسپریس میں لکھے گئے اپنے کالم میں اُس وقت کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے 'ہائبرڈ'نظامِ حکومت قرار دیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گھر پر بغیر وارنٹ کے چھاپے، غیر قانونی گرفتاری اور تفتیش پر ہرممکنہ قانونی فورمز، عدالتوں اور اداروں سے رجوع کیا۔ لیکن 13 ماہ گزرنے کے باوجود بھی انہیں انصاف نہیں مل سکا اور ان کی آزادی سلب کرنے، آزادی اظہار سے روکنے والوں کو کوئی سزا نہیں ملی سکی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے کالم میں حکومت پر تنقید کی گئی لیکن تفتیش کے دوران ان سے یہ پوچھا جاتا رہا کہ آپ ریاست کے خلاف کیوں لکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں "جرنلسٹ پروٹیکشن بل" سندھ کے تحت بغیر وارنٹ بلا جواز ریاستی دہشت پھیلانے اور اہل خانہ کو خوف زدہ کرنے کے ساتھ اپنے اغوا پر آئینی درخواست دائر کی تھی۔ لیکن اس پر مزید کارروائی سندھ جرنلسٹ پروٹیکشن بل کے تحت اب تک قائم نہ ہونے والے کمیشن کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور سلامتی کے لیے پرعزم اور کوشاں ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا ہ تھا کہ حکومت صحافیوں کے بنیادی انسانی حقوق اور آزادی صحافت کا ہر لحاظ سے احترام کرتی ہے اور صحافیوں کی رائے کو مقدم سمجھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت ماضی کی حکومت کی طرح صحافیوں کے حقوق سلب کرنے پر کسی صورت یقین نہیں رکھتی۔ تاہم بہت سے صحافی حکومتی رہنماؤں کے ایسے بیانات پر مکمل یقین کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG