امریکی بلاگر و دستاویزی فلمیں بنانے والی فلم ساز سنتھیا ڈی رچی اور پاکستان کے سابق وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر مقدمات واپس لے لیے ہیں۔
سنتھیا ڈی رچی کی طرف سے رحمان ملک پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
سنتھیا رچی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رحمٰن ملک کے خلاف درخواستیں واپس لینے کی متفرق درخواست دائر کی تھی جس کی سماعت جسٹس عامر فاروق نے کی۔
عدالت نے جمعرات کو سماعت کے موقع پر فریقین کے درمیان صلح ہونے پر تمام درخواستیں خارج کر دی ہیں۔
سنتھیا ڈی رچی کے وکیل عمران فیروز ملک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے یہ درخواستیں واپس لینے کی تصدیق کی اور کہا کہ اُنہیں موکلہ کی جانب سے جیسے ہدایت دی گئی تھی اس کے مطابق انہوں نے یہ درخواستیں واپس لے لی ہیں۔
عمران فیروز نے بتایا کہ سنتھیا ڈی رجی کے ریپ کے الزامات کے تحت دی گئی درخواست بھی واپس لے لی گئی ہے۔ اسی طرح رحمٰن ملک نے بھی اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔
کیا ریپ کا الزام لگا کر صلح ہو سکتی ہے؟
کیا ریپ الزامات کے ساتھ عدالت جانے کے بعد صلح ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس سوال پر عمران فیروز کہتے ہیں ابھی اس معاملے میں ایف آئی آر کا اندراج ہی نہیں ہوا تھا۔ ان کے بقول اگر ایف آئی آر درج ہو جاتی تو صورتِ حال مختلف ہوتی۔ لہذا اس مرحلے پر سنتھیا اپنی درخواست واپس لینے کا اختیار رکھتی تھی اور انہوں نے فی الحال اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔
اس سوال پر کہ کیا سنتھیا اپنے دعوے سے مکمل طور پر دست بردار ہو گئی ہیں؟ عمران فیروز نے کہا کہ انہیں جس طرح ہدایت ملی تھی اس کے مطابق انہوں نے عدالت میں دائر درخواست واپس لی ہے۔
امریکی بلاگر کے وکیل مزید کہتے ہیں کہ سنتھیا اپنے دعوے سے دست بردار ہوئی ہیں یا نہیں اس بارے میں وہی بہتر بتا سکتی ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے مطابق سنتھیا اور رحمٰن ملک کے معاملے میں ریاست کو آگے آنا چاہیے اور کارروائی کو چلانا چاہیے کیوں کہ ایک خاتون نے سابق وزیرِ داخلہ پر انتہائی سنگین الزامات عائد کیے اور پھر اس معاملے میں صلح ہو گئی۔
اظہر صدیق کے مطابق قانون کے مطابق اس معاملے میں ابھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اور وہ درخواست واپس لے سکتی ہیں۔ لیکن اگر ریاست اس بارے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہے اور ان الزامات پر کیس چلانا چاہے تو چلا سکتی ہے۔
ایڈووکیٹ اظہر مزید کہتے ہیں اگر ریاست مذکورہ معاملے میں آگے نہیں آتی تو دیگر معاملات میں مدعی کو دباؤ یا لالچ کے ذریعے راضی کر لیا جائے گا، اس طرح الزامات کی درخواستیں واپس ہوتی رہیں گی۔
سنتھیا رچی اور رحمٰن ملک کے درمیان تنازع
سنتھیا رچی اگرچہ کئی برسوں سے پاکستان میں ہیں لیکن حالیہ عرصے میں ان کا نام اس وقت زیادہ سامنے آیا جب انہوں نے سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے حوالے سے متنازع ٹوئٹ کی۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے خلاف اور حق میں ایک مہم سامنے آئی۔
بے نظیر بھٹو پر الزامات کے چند روز بعد سنتھیا نے ایک 'فیس بک لائیو' میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سابق وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک اور مخدوم شہاب الدین پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات لگائے۔
اپنے الزامات میں سنتھیا رچی کا کہنا تھا کہ رحمٰن ملک نے ایک دن اُنہیں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر بلایا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔
تاہم یوسف رضا گیلانی، مخدوم شہاب الدین اور رحمٰن ملک نے سنتھا کے الزامات کی مکمل طور پر تردید کی تھی جب کہ رحمٰن ملک نے اس بارے میں عدالت سے رجوع کیا تھا۔
سنتھیا رچی کے الزامات کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سنتھیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی نے سنتھیا کے خلاف ایف آئی اے اور پولیس کو درخواستیں بھی دے رکھی ہے۔
سنتھیا رچی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر لگائے گئے اپنے ان الزامات کو پولیس اور عدالت کے سامنے ثابت کرنے میں ناکام رہی تھیں جس پر انہوں نے 22 اے کی درخواست مسترد ہونے پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔
سابق وزیرِ داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رحمٰن ملک نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سلسلے میں ایک درخواست دائر کی تھی۔ انہوں نے سنتھیا رچی پر ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کیا تھا۔
ابھی پاکستان میں سنتھیا کے الزامات کی گونج سنائی دی جا رہی تھی کہ وزارتِ داخلہ نے ان کے ویزہ میں توسیع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اُنہیں 15 دن میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس بارے میں عدالت عالیہ سے حکم امتناعی حاصل کر لیا تھا۔
گزشتہ برس 17 جولائی کو وزارتِ داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ بھی جمع کرائی تھی جس میں انہوں نے سنتھیا کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی بلاگر کسی قسم کی غیر قانونی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے۔
اس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے وزارتِ داخلہ کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ رپورٹ میں عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سنتھیا ڈان رچی کون ہیں؟
سنتھیا امریکی ریاست لوزیانا میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے 2003 میں 'لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی' سے 'کریمنل جسٹس' میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی جب کہ دو سال بعد اسی یونیورسٹی سے 'سائیکالوجی' میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔
سنتھیا پہلی بار نومبر 2009 میں پاکستان آئی تھیں۔ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ریکارڈ کے مطابق ان کے پاس تین دن کا وزٹ ویزا تھا۔
ریکارڈ کے مطابق سنتھیا رچی گزشتہ 10 برسوں میں تقریباً 50 مرتبہ پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں اور اس وقت بھی اسلام آباد میں ہی موجود ہیں۔