واشنگٹن میں عالمی مالیاتی دارے کے عہدیدار اور اسلام آباد میں وزارت خزانہ کے عہدیدار اس توقع کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے پیکج پر معاہدہ آئندہ اسٹاف لیول اجلاس میں طے پا جائے گا۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو بھی عالمی مالیاتی ادارے کے عہدیداروں کے ساتھ ورچول اجلاس میں شرکت کی اور بتایا کہ پاکستان نے تمام شرائط پر عمل درآمد کو یقینی بنا دیا ہے۔ادھر پاکستان کی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے بھی وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں بتایاہے کہ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کی بحالی کو بیرونی فنانسنگ کی دستیابی سے مشروط کیا تھا اور دوست ممالک سے یقین دہانی کے بعد پاکستان اسٹاف لیول معاہدے کے بہت قریب ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر جہاد آزور نے واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وائس آف امریکہ کے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کی مالی ضروریات آئى ایم ایف کے پیکج سے بہت زیادہ ہیں۔ مسئلے کے حل کے لیے عالمی ادارہ پاکستان کے شراکت داروں اور دوست ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
واشنگٹن سے اسد خالد کی رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی معیشت بہتر بنانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے، تاہم کیا معاشی اصلاحات لانا ہیں، یہ فیصلہ خود پاکستان کو کرنا ہو گا۔
پاکستان اس وقت آئى ایم ایف سے اپنے 23ویں پروگرام کے نویں جائزے کی قسط کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔لیکن ابھی تک ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی قسط کے لیے سٹاف لیول معاہدہ نہیں ہو سکا۔
عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ کرسٹالینا جیورجیوا کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ پاکستان کے ساتھ مل کر قرض کے حل کے لیے کوئى پالیسی فریم ورک بنانے کی کوشش میں ہے۔اس سے پہلے کہ پاکستان کا قرض غیر پائىدار سطح پر پہنچے ، اسکا حل نکالنے کی ضروت ہے۔
دوسری طرف پاکستان کی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نےوائس آف امریکہ کے نمائندہ علی فرقان کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کی بحالی کو بیرونی فنانسنگ کی دستیابی سے مشروط کیا تھا اور دوست ممالک سے یقین دہانی کے بعد پاکستان اسٹاف لیول معاہدے کے بہت قریب ہے۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ دوست ممالک انہیں پاکستان کو مالیاتی فنڈ کی فراہمی کی براہ راست یقین دہانی کروائیں۔
اس سے قبل، جمعرات کو پاکستان کی وزارت خزانہ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور اور آئى ایم ایف کے عہدیداروں کے درمیان ایک ورچوئل ملاقات میں پاکستان کی معاشی کارکردگی کا جائزہ لیاگیا۔پاکستان کے مطابق عالمی ادارے کی ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر انٹونیٹی مونیسو سائےنے حکومت کی پالیسیوں کو سراہا اور آئى ایم ایف کےساتھ طے شدہ پیشگی اقدامات کے نفاذ کے سلسلے میں مختلف شعبوں میں حکومت کے اقدامات کی حمایت کی۔
انہوں نے مل کر کام جاری رکھنے کے لیے اپنی حمایت کو مزید بڑھایا اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ بہت جلد سٹاف لیول معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آئى ایم ایف کی ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر کو پاکستان کے معاشی نقطہ نظر اور معاشی استحکام لانے کے لیے حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا ۔ وزیر خزانہ کے مطابق آئى ایم ایف کے نویں جائزے کے لیے تمام پیشگی اقدامات کر لیے گئے ہیں اور حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے اور عالمی ادارے کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کا خواہش مند ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی تمام بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بروقت پورا کیا ہے۔
اسحاق ڈار کی اس ملاقات سے پہلے، آئى ایم ایف کے ڈائریکٹر جہاد آزور نے واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وائس آف امریکہ کے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کی مالی ضروریات آئى ایم ایف کے پیکج سے بہت زیادہ ہیں۔ مسئلے کے حل کے لیے عالمی ادارہ پاکستان کے شراکت داروں اور دوست ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
جہاد کا کہنا تھا کہ پاکستان کو روپے کی قیمت کو مارکیٹ کے لحاظ سے چلنے دینا چاہیے۔وہ چاہے آئى ایم ایف کے پروگرام میں رہ کر ہو یا اس سے باہر۔ پاکستان میں مہنگائى کی بلند ترین شرح پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کو ملک کے اندر ڈبل ڈیجٹ میں رہنے والی مہنگائى کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
آئى ایم ایف پاکستان کے لیے کیوں ضروری ہے؟
ماہر معاشیات ثاقب رضاوی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے معاشی سیلف ڈسپلن بہت ضروری ہے، جو کہ ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے نہیں آسکا۔عالمی مالیاتی ادارے کا پروگرام ملک کو ایک گائیڈلائىن دیتا ہے۔اور وہ کام جو ملک کے اپنے معاشی حکام نہیں کر سکے، آئى ایم کے ذریعےان کے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
1950 سے پاکستان آئى ایم ایف کا رکن ہے، اور آئى ایم ایف کے پروگرام اس کے لیے کوئى نئى بات نہیں ہیں۔عالمی ادارے کی ویب سائىٹ پر دی گئى تفصیل کے مطابق پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ پروگرام ساڑھے چھ ارب ڈالر کا ہے۔ یہ 23واں پروگرام ہے جو اس سال جون میں ختم ہو رہا ہے۔پہلی بار پاکستان آئى ایم ایف کے پاسدسمبر 1958 میں ڈھائى کروڑ ڈالر کے لیے گیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے پاکستانی کی معاشی صورت حال پر بات کرتے ہوئے اٹلانٹک کونسل کے پاکستان انیشیئٹو کے ڈائریکٹر عزیر یونس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مہنگائى کو کم کرنے کے لیے کوئى شارٹ ٹرم حل نہیں ہے۔ پاکستان کو ہر حال میں انتہائى سطح کی سٹرکچرل ریفارمز کرنا ہوں گی تا کہ پاکستان کے ڈونرز پاکستان کو مزید فنڈز دے سکیں یا پاکستان کو قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کی طرف جانا ہو گا یعنی ملکی قرضوں کو کم مدتی قرضوں سے لمبی مدت کے قرضوں میں تبدیل کرنا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں پاکستان کا پاس شاید ایک ہی آپشن بچتا ہے کہ وہ قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کی طرف جائے، جو کہ عام لوگوں کے لیے مزید تکلیف دہ ہو گا۔
پاکستان میں گزشتہ سال آنے والے سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور ملک کی خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں مزید تقریبا نوے لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئےہیں۔
ایشن ڈیولپمنٹ بینک کے مطابق پاکستان کا ہر پانچ میں سے ایک فرد قومی سطح پر دی گئى خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔