پاکستان میں کالعدم جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور حکومت کے درمیان خفیہ معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے جس کے بعد حکومت نے ٹی ایل پی کے کارکنوں کو رہا کرنا شروع کر دیا ہے۔ معاہدے کے تحت کالعدم جماعت کو پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا۔
حکومت کے ٹی ایل پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی تفصیلات تو سامنے نہیں لائی۔ البتہ مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق فریقین کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے جس کے بعد ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی کی رہائی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
کالعدم جماعت ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس پر عمل درآمد کے لیے دونوں فریقین نے 10 روز کا وقت مانگا ہے۔
حکومت اور ٹی ایل پی کے معاہدے پر عمل درآمد کرانے والی کمیٹی کے کنوینئر اور وزیرِ مملکت علی محمد خان کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم موجودہ معاہدے کی تمام تفصیلات سے باخبر رہیں۔
نجی ٹی وی چینلز ‘جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے علی محمد خان کا کہنا تھا کہ سات سے 10 دن میں معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں سعد رضوی کی رہائی سمیت دیگر تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔ وہ کالعدم جماعت ٹی ایل پی کو قومی دھارے میں خوش آمدید کہیں گے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ فرانس کے سفیر کی بے دخلی پر پارلیمنٹ جو فیصلہ کرے گی، ٹی ایل پی اسے قبول کرے گی۔
محکمۂ داخلہ پنجاب نے صوبے بھر میں نقصِ امن کے تحت نظر بند ٹی ایل پی کے کارکنوں کو رہا کرنا بھی شروع کر دیا ہے جس کے تحت صوبے بھر میں مجموعی طور پر 1800 سے زائد ایسے افراد کو رہا کیا گیا ہے جنہیں ایم پی او کے تحت نظر بند کیا گیا تھا۔
محکمۂ داخلہ کے مطابق ایسے افراد کو رہا کیا جا رہا ہے جن کے خلاف مقدمات درج نہیں ہیں۔
ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور کے مطابق کالعدم تنظیم سے حکومت کے مذاکرات کے بعد معاہدے پر عمل درآمد کا طریقۂ کار وضع کرنے کے لیے اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس منعقد کیے جا رہے ہیں۔
محکمۂ داخلہ پنجاب کے مطابق ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں جس کی فہرست وفاقی وزارتِ داخلہ کو ارسال کر دی گئی ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی رو سے ٹی ایل پی کی کالعدم حیثیت کو ختم کیا جائے گا اور اُنہیں انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی ہو گی۔
پاکستان کی حکومت نے رواں برس اپریل میں ٹی ایل پی کو کالعدم تنظیم قرار دیا تھا۔ اِس کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ مذہبی شدت پسند گروہ ہجوم کو اکٹھا کر کے پرتشدد کارروائیوں کی صلاحیت تو رکھتے ہیں, البتہ سیاست میں ان کا عملی کردار بہت مختصر ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سنی تحریک ایک موقع پر ٹی ایل پی سے زیادہ شدت پسند جماعت تھی البتہ یہ جماعت جلد ختم ہو جائے گی۔ ایسی جماعت سے اتحاد کا مطلب تنہائی ہے۔
خیال رہے ٹی ایل پی کے سندھ اسمبلی میں دو اراکین بھی ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ کسی بھی شخص یا جماعت کا سیاست میں حصہ لینا یا نہ لینا ایک آئینی مسئلہ ہے۔ وہ لوگ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے جن پر کچھ خاص طرح کے الزامات ہوں اور اُن الزامات کا ثابت ہونا بھی ضروری ہے۔ خاص طور پر کسی مجاز عدالت سے ثابت ہونا ضروری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ کسی کے کہہ دینے سے کوئی کالعدم نہیں ہو جاتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کے مراحل کو پورا نہیں کیا گیا۔ حکومت نے زبانی طور پر ٹی ایل پی کو کالعدم کہا البتہ بعد کی کارروائی نہیں کی گئی۔
ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی تو باقاعدہ کارروائی کی گئی۔ قانون کے مطابق فیصلے ہوئے۔ مقدمات بنے۔ حیدرآباد ٹریبونل بنایا گیا۔ جس میں لوگ پیش ہوئے۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ اگر کی گئی تو اُس کا نتیجہ کیا نکلا۔ اُنہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا عدالتِ عظمٰی نے ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیا ہے؟
پنجاب پولیس کے مطابق ٹی ایل پی کے حالیہ احتجاج کے باعث پولیس کے سات اہل کار ہلاک ہوئے ہیں جب کہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس جاوید اقبال سمجھتے ہیں کہ کسی سے مذاکرات کرنا معیوب نہیں ہے البتہ ایک ہی چیز بار بار دہرائی جا رہی ہے جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مظاہرین کے ساتھ وقت گزارنے کا ایک طریقہ رکھا ہوا ہے۔ وقتی طور پر بات چیت کر کے اُن کو اٹھا دیا جائے اور اُس کے بعد کچھ بھی نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہر پانچ سے چھ ماہ بعد ایک ہی چیز دہرائی جا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اِس صورتِ حال پر حکومت کی ایک حکمتِ عملی ہونی چاہیے جو کہ نظر نہیں آ رہی جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وقت گزارنے کے لیے ایک معاہدہ کر لیا جاتا ہے۔ جس کے بعد انتظار کیا جاتا ہے کہ اگلے چھ ماہ بعد دوبارہ یہ صورتِ حال بن جائے گی۔
سابق آئی جی پنجاب جاوید اقبال کہتے ہیں کہ یہ ایک ناکامی ہے جس میں کوئی حکمتِ عملی وضع نہیں کی جاتی اور جس سوچ کا مظاہرین کی طرف سے مظاہرہ کیا جاتا ہے اس کا نہ کوئی مؤثر جواب دیا جاتا ہے نہ ہی حکومت کی جانب سے کوئی ایسا بیانیہ سامنے آتا ہے جو لوگوں کو بتائے کہ جو بات مظاہرین کر رہے ہیں۔ یہ غلط ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ اِس وقت پاکستان میں گورننس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پولیس تھانوں میں لوگوں کی مدد کی بجائے اُن کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔
سابق آئی جی پولیس جاوید اقبال کی رائے میں بار بار ایسا کرنے سے پولیس کا مورال نیچے آتا ہے۔ اُن کی کارکردگی پر بھی اثر پڑتا ہے اور معاشرے میں پولیس کا جو اسٹیٹس ہے اُس پر بھی فرق پڑتا ہے۔
سینئر صحافی افتخار احمد نے کہا کہ اِس طرح کے مظاہروں میں پہلے بھی پولیس والوں کی جانیں گئی ہیں اور اب بھی پولیس اہل کار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لیکن کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔
سوات میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف 2009 میں ہونے والے آپریشن ’راہِ راست‘ کا ذکر کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ ایک وقت میں ریاستِ پاکستان نے مولوی فضل اللہ کو خود سوات میں اپنی شریعت نافذ کرنے کا کہا تھا جس کے بعد پاکستان کی فوج کو صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے ایک طویل آپریشن کرنا پڑا تھا۔
اُن کے بقول اگر ٹی ایل پی وزیر آباد سے آگے جاتی تو پنجاب رینجرز کے پاس گولی چلانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا جس کے بعد پورا ملک اِن کے حق میں کھڑا ہو جاتا۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرتی تو بہت سے معاملات بہتر ہو جاتے۔ اُن کی رائے میں بہت ساری باتیں نیشنل ایکشن پلان میں لکھی تو ہیں لیکن اُن پر عمل نہیں ہوا۔
سابق آئی جی پولیس جاوید اقبال کہتے ہیں کہ جب تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا گیا تو اس کے خلاف ثبوت موجود تھے جس سے معلوم ہو رہا تھا کہ اُنہیں کیوں کالعدم قرار دیا جا رہا ہے۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے پاکستان میں اِس سے قبل بھی بہت سے مواقع آئے ہیں۔ جب کسی جماعت کو کالعدم قرار دیا گیا بلکہ عدالتِ عظمٰی سے بھی حکم نامہ لیا گیا لیکن بعد میں ان جماعتوں کو دیگر ناموں سے کام کرنے کی اجازت دی گئی۔
بدھ کی صبح عدالتِ عالیہ لاہور نے سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر درخواست گزار کے وکیل کو جمعرات تک دلائل دینے کی ہدایت کر دی ہے۔
حکومت اور ٹی ایل پی نے 31 اکتوبر 2021 کو اعلان کیا تھا کہ ان کے درمیان تصادم ختم کرنے کے لیے ایک سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ دونوں فریقوں نے معاہدے سے متعلق کوئی بھی تفصیلات ذرائع ابلاغ کو دینے سے انکار کیا تھا۔