وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے حزبِ اختلاف کے رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ عروج پر ہے۔
وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) جہاں اپنی اتحادی جماعتوں بشمول متحدہ قومی موومن (ایم کیو ایم) کے ساتھ صلاح مشورے کر رہی ہے اور ان کے تحفظات سن رہی ہے۔ تو وہیں سندھ میں برسر اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی وفاق میں حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو عدم اعتماد کی تحریک میں ساتھ ملانے کے لیے کوشاں ہے۔
دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان پیر کو ہونے والی ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
کئی مبصرین پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ماضی میں رہنے والے تعلقات کی وجہ سے اس ملاقات کا نتیجہ کسی اتحاد کی صورت میں سامنے آنے پر شکوک و شبہات ظاہر کر رہے ہیں۔
’ماضی میں غیر فطری اتحاد مستقبل کے لیے پیش گوئی ہے‘
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی ملاقات پر تجزیہ کار اور صحافی اویس توحید کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کو دونوں جماعتوں کے درمیان ماضی میں رہنے والے تعلقات کے حوالے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد کی تاریخ 1988 سے شروع ہوتی ہے جب بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم منتخب ہوئی تھیں۔ تاہم یہ اتحاد زیادہ دیر نہ چلا اور اکتوبر 1989 ہی میں دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کے باعث اتحاد ختم ہو گیا تھا جس کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف پیپلز پارٹی کے اگلے دور میں کراچی آپریشن تیز ہوا۔
ایک دوسرے پر ماضی میں لگائے گئے الزامات
پیپلز پارٹی کے دور میں کراچی میں ہونے والے آپریشن کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ اس کے ہزاروں کارکنوں کو قتل یا پھر غائب کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ 2008 میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد ایک بار پھر دونوں جماعتیں متحد نظر آئیں اور قومی اسمبلی کے ساتھ سندھ میں بھی ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت بنی رہی۔
انہوں نے بتایا کہ دسمبر 2010 میں ایم کیو ایم نے وفاق میں اتحادی حکومت سے علیحدگی اور وزارتیں چھوڑنے کا اعلان کیا تھا البتہ صوبے میں یہ جماعت بدستور پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومتی بینچز پر ہی براجمان رہی۔ اس دوران دونوں جماعتوں کے درمیان کراچی میں لسانی بنیادوں پر اموات اور دہشت گردی، کراچی میں قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی اور مقامی حکومتوں کے بارے میں اختلافات میں مزید شدت آتی گئی اور فروری 2012 میں ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سے بھی اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔
اویس توحید نے مزید بتایا کہ یوں دونوں جماعتوں کے درمیان دو بار اتحاد تو ہوا البتہ یہ کچھ عرصہ چلنے کے بعد ختم ہوگیا۔
ایم کیو ایم کو حکومتی اتحادیوں کے فیصلے کا انتظار
ان کا کہنا تھا کہ اس بار بھی بعض اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے سندھ حکومت میں وزارتیں دینے کے ساتھ اتحاد کی پیشکش اور مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ بدلے میں پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کی مدد سے تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب بنانا چاہتی ہے۔
ان کے مطابق ایم کیو ایم اپنا فیصلہ اس وقت تک نہیں کرنا چاہتی جب تک یہ معلوم نہ ہو جائے کہ مسلم لیگ (ق) تحریکِ عدم اعتماد میں اپنا وزن کس پلڑے میں ڈال رہی ہے۔
’ایم کیو ایم کی شرائط پر عمل درآمد کی یقین دہانی کی صورت میں اتحاد ممکن ہے‘
دوسری جانب ایک اور سیاسی مبصر ڈاکٹر توصیف احمد کا بھی کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں بننے ہونے والی مسلم لیگ (ق) کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرتی رہی ہے اور اب یہ وفاق میں تحریکِ انصاف کے ساتھ بھی اتحادی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں دیکھا جائے تو سوائے پرویز مشرف کی حکومت میں بننے والے اتحاد کے تمام ہی اتحاد ٹوٹے ہیں۔ ان کے خیال میں ایم کیو ایم نے اس بار اتحاد کے لیے جو شرائط رکھی ہیں اس پر پیپلز پارٹی عمل کرے تو دونوں جماعتوں کا اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا تھا کہ ان کے پاس موجود اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم نے اس بار وزارتیں نہیں مانگیں بلکہ قانونی اور آئینی نکات پیش کیے ہیں جس میں سے ایک صوبے میں مقامی حکومتوں کا مؤثر نظام لانے سے متعلق ہے جس کے بارے میں اب تو سپریم کورٹ کا بھی واضح حکم آ چکا ہے اور اس پر عمل درآمد کرنا ویسے ہی صوبائی حکومت کی قانونی ذمہ داری بن چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے دوسرا اہم نکتہ سندھ میں شہری اور دیہی آبادی کے لیے مختص کوٹے پر شفاف طریقے سے عمل درآمد سے متعلق ہے اور اس پر عمل درآمد ممکن بنانے میں بھی صوبائی حکومت کو کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔
ووٹرز کو کیسے مطمئن کیا جا سکتا ہے؟
مبصرین کے مطابق ماضی میں ایم کیو ایم، سندھ میں 13 سال سے مسلسل برسرِ اقتدار جماعت پیپلز پارٹی پر صوبے کے شہریوں کے حقوق کو غصب کرنے، کرپشن اور لسانیت کی سیاست کو پروان چڑھانے کے الزامات عائد کرتی رہی ہےجب کہ اس نے الگ صوبے کا بھی مطالبہ کیا تھا جب کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے ایم کیو ایم پر دہشت گردی، قتل و غارت گری، بھتہ خوری سمیت دیگر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان ماضی میں جو تلخیاں رہی ہیں اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرتی رہی ہیں تو دونوں جماعتیں بالخصوص ایم کیو ایم اپنے ووٹرز کو اس اتحاد پر کیسے مطمئن کرسکتی ہے؟ ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا تھا کہ جب ووٹرز کو پانی کی فراہمی، صفائی ستھرائی اور سرکاری ملازمتیں ملنے سے متعلق مسائل حل ہوتے نظر آئیں گے تو انہیں ماضی کی نسبت تبدیلی نظر آئے گی تب ہی وہ مطمئن ہو پائیں گے۔
ڈاکٹر توصیف احمد کے خیال میں اگر ایسا ہوتا ہے تو اسی سے صوبے میں لسانیت کی سیاست اور قوم پرستی کے اثرات کو کافی حد تک زائل کیا جاسکے گا۔
اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم نے نکات پر عمل درآمد کرنے کے لیے مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علماء اسلام (ف) کی قیادت کو ضمانت دینے کے لیے کہا ہے۔ اگر ان کی جانب سے یہ ضمانت دے دی جائے تو ہی ایم کیو ایم عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کو تیار ہوپائے گی۔
مستقل اور بہتر روابط استوار کرنے پر اتفاق
پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں ترجمان متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ہونے والی ملاقات میں ایم کیو ایم نے شہری سندھ کے مسائل پر پارٹی کے مؤقف سے آگاہ کیا جس پر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے شہری سندھ کے مسائل کے حل کے لیے مستقل اور بہتر روابط استوار کرنے پر اتفاق کیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد سمیت سیاسی صورتِ حال پر پارٹی کے اندر صلاح مشورے اور مفادات کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ترجمان کا بھی کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ملک کے وسیع تر مفاد میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے جب کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایم کیو ایم کی جانب سے اٹھائے گئے تمام نکات سے اتفاق کیا ہے۔