"میں جب بھارت سے پاکستان آ رہی تھی تو میرے جانے پر میری کالج کی سہیلیاں بہت خوش تھیں انہوں نے مجھے فرمائشوں کی فہرست تھمائی کہ جب کراچی سے واپس آؤ تو ہمارے لیے یہ سب چیزیں لے کر آنا۔ وہ فہرست اب ایک یادگار کے طور پر میرے پاس ہے مجھے نہیں معلوم تھا کہ نہ تو میں اپنے وطن واپس جاسکوں گی نہ ہی پھر کبھی دوستوں سے مل سکوں گی۔"
یہ کہنا ہے 38 سالہ سلمی شمس کا جن کی آج سے 20 برس قبل پاکستان میں شادی ہوئی اور وہ ایک بار بھی بھارت واپس نہ جاسکیں۔
اُن کے بقول "میری خالہ کی سب سے بڑی بیٹی کی شادی تھی جب میں اپنی امی، ابو، بھائی، چھوٹی بہن اور نانی کے ہمراہ کراچی آئی یہ 2003 کی بات ہے۔ میرا سارا ننھیال، ددھیال کلکتہ میں رہائش پذیر ہے میری دو خالہ وہ ہیں جن کی شادیاں پاکستان میں ہوئیں۔ اب خالہ کی بڑی بیٹی کی شادی کا موقع آیا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ نانی اور میری والدہ بھی شرکت کریں یوں ہم بھارت سے کراچی پہنچے۔"
وہ کہتی ہیں کہ "میرے لیے پاکستان میں ہونے والی شادی کو دیکھنا ہی سب سے بڑی خواہش تھی سو میں بھی ضد کر کے آگئی۔ مجھے یاد ہے میں نے اور بہن نے خوب تیاری کی تھی بہت کپڑے بنوائے تھے ہم جو کندن کے زیورات لائے تھے وہ یہاں ہمارے رشتے دار بہت شوق سے دیکھتے اور تعریف کرتے۔ـ"
سلمیٰ کے بقول "شادی کی گہما گہمی کے بعد میرے کان میں بات پڑی کہ خالہ کے سسرال سے میرے لیے رشتہ مانگا گیا ہے۔ مجھے لگا کہ بات چیت طے ہوجائے گی اور پھر لڑکے والے کلکتہ آئیں گے خوب دھوم دھام سے شادی ہوگی اور میں بیاہ کر یہاں آجاؤں گی لیکن اس کے بر عکس فیصلہ ہوا۔"
اُن کے بقول "بڑوں میں طے ہوا کہ نانی، والدین اور دیگر رشتے دار موجود ہیں تو شادی ابھی کردی جائے، شمس کے گھر والوں نے کچھ بھی لینے سے انکار کردیا تھا۔ یوں میری شادی طے پاگئی۔ خالہ زاد کی شادی کے 15 روز بعد میرے والدین مجھے بیاہنے کے بعد بھارت جاتے وقت زارو قطار رو رہے تھے ۔ میرے اندر جیسےکچھ ٹوٹ گیا تھا میں روئی نہ میں نے کچھ کہا بس ان کو الوداع کہا اور گھر کے اندر آگئی۔"
سلمی کا مزید کہنا تھا کہ "شمس کے گھر والوں نے میرا بہت خیال کیا اور پھر مجھے پاکستانی شہریت دلوانے کی کوششیں شروع ہوگئیں جو ایک کے بعد ایک ناکام ہوتی گئیں۔ اسی دوران میں تین بچوں کی ماں بن چکی تھی جب کوشش کرتی کہ کسی طرح بھارت جاؤں اور اپنے پیاروں سے مل لوں توویزا نہیں مل پاتا۔
"کئی بار مالی تنگی آئی تو کوششیں ترک کیں۔ ان برسوں میں بہن اور بھائی کی شادی ہوئی، امی شدید بیمار ہوئیں یہاں تک کہ ان کا انتقال بھی ہوگیا پر میں اپنے والدین کے گھر اور ان گلیوں کو پھر سے نہ دیکھ پائی جو میں برسوں پہلے چھوڑ کر آئی تھی۔ فون پر جب بھی بات ہوتی تھی تو بہن کہتی تھی کہ امی کو تمہارا روگ لگ گیا ہے انہیں لگتا ہے کہ ان سے اور نانی سے بہت غلط فیصلہ ہو گیا۔"
وہ بار بار کہتی ہیں کہ سلمی اس روز روئی نہیں وہ تو خفا ہے ہم نے بہت ظلم کردیا نہ اسے شہریت ملتی ہے نہ ویزا نہ جانے ہمیں معاف بھی کرے گی یا نہیں۔
سلمی کے مطابق، "میں آج تک نہیں سمجھ پائی کہ مجھے کس جرم کی سزا ملی مجھے شہریت دینے اور ویزا دینے میں قباحت کیا تھی۔ ایک غلط فیصلہ تو میرے والدین نے کیا لیکن جو پاکستان کی سرکار نے کیا وہ تو اس فیصلے سے بھی بڑا ظلم ہے۔"
'پاکستان میں شادی سے خاندان بکھر گیا'
چالیس سال کی شادی شدہ زندگی اور بھارتی سے پاکستانی شہری بننے والی 62 سالہ فردوس علی کہتی ہیں کہ پاکستان میں ان کی شادی ہونے سے ان کا خاندان بکھر کر رہ گیا۔
فردوس علی کے مطابق ان کے والدین کا یہ فیصلہ ہی غلط تھا جسے آج سب بھگت رہے ہیں اس کا احساس انہیں اس روز شدت سے ہوا جب وہ اپنے والد کی وفات پر بھارت نہ جاسکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "میرے والد شدید علیل تھے ان کی بیماری کی اطلاع مجھے بھائی سے ملی۔ میں اس سے قبل کئی بار بھارت جاچکی تھی مجھے امید تھی کہ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ میں نے ویزا لگوانے کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا لیکن ہمیں مزید کاغذات لانے کا کہا گیا۔ یہاں تک کہ اس دوران تین بار میرا اسلام آباد کا چکر لگا میں نے اپنے بھائی سے مزید کاغذات بھارت سے منگوائے لیکن مجھے ویزا نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا۔"
فردوس کہتی ہیں کہ "جس روز میرے والد کا انتقال ہوا مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے پوری دنیا میں آگ لگی ہوئی ہے۔ میں دروازوں اور کھڑکیوں پر لگی لوہے کی سلاخوں سے اپنا سر ٹکرا رہی تھی مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ سب قید ہے۔ مجھے اس وقت اپنے بہن بھائی کے پاس ہونا تھا لیکن میں یہاں بے بس تھی۔"
اُن کے بقول "22 سال قبل بھی ہم پر ایک سانحہ گزرا تھا میری والدہ پاکستان آئی تھیں انہیں کینسر کی تشخیص ہوئی ان کا علاج یہییں شروع ہوگیا کیوں کہ میرے علاوہ ایک اور بہن بھی شادی ہوکر پاکستان میں آبسی تھی۔ میری والدہ کا اس بیماری میں انتقال ہوگیا اور ان کی وفات پر میرے وہ بہن بھائی جو بھارت تھے نہ آسکے۔"
فردوس علی کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے ان کی شادی شدہ بیٹی امریکہ میں مقیم ہیں جو اپنے والد کی بیماری کے دوران پاکستان آئیں اور آخری وقت تک ساتھ رہیں۔
فردوس کہتی ہیں کہ " آپ اپنی بیٹی کی شادی دنیا میں کہیں بھی کردیں لیکن بھارت، پاکستان میں نہ کریں۔ مجھے بہت لوگوں نے کہا کہ بیٹے کے لیے بہو بھارت سے لے آؤ، میں نے کہا کہ یہ میرے جڑے ہوئے ہاتھ دیکھ لو۔ بس کردو مجھے کسی کی بیٹی کو ایسی آزمائش میں نہیں ڈالنا جس سے ہم گزرے ہیں۔"
"ہمارا خاندان ستر، اسی کی دہائی میں کان پور کا خاصا خوشحال خاندان تھا میرے والد کی بہت اچھی نوکری تھی ۔ میرے والدین کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ بیٹیوں کے رشتے یہاں کرتے۔ کیا بیٹیوں کو وہاں رشتے نہیں ملتے کیا وہاں لڑکے نہیں تھے؟ـ"
ساٹھ سالہ مہر انساء نقوی کی پیدائش بھارت کے شہر بدایوں کی ہے۔ وہ 1965 کی جنگ کے بعد بھارت پاکستان میں پھنسے شہریوں کے لیے کھولے جانے والے عارضی راستے سے پاکستان اپنی والدہ، نانی اور بہن کے ہمراہ آئی تھیں۔ ان کے تمام عزیز خونی رشتے وہیں پر رہ گئے۔
وہ کہتی ہیں کہ "میرے ماموں پاکستان آگئے تھے اور وہ یہاں سیٹل تھے۔ میری نانی ان کو بہت یاد کرکے روتی تھیں۔ پھر کسی طرح میرے ماموں نے ہمیں مائیگریشن سرٹیفیکیٹ بھیجا کہ ہم پاکستان آجائیں یوں جب ہم بھارت سے نکل رہے تھے تو ہم پاکستانی شہری تھے۔"
اُن کے بقول "ہمیں 1965 کی جنگ سے قبل آنا تھا لیکن پھر ہندوستان، پاکستان میں جنگ چھڑ گئی۔ مجھے یاد ہے کہ ہم پاکستان کی فتح کے لیے دعائیں مانگتے تھے اور سوچتے تھے کہ یا خدا اب تو ہم نہ یہاں کے رہے نہ وہاں کے کیوں کہ ہم اپنا آبائی گھر بیچ چکے تھے سامان سمیٹ چکے تھے کہ جنگ ہوگئی اس دوران ہم اپنے رشتے داروں کے پاس مقیم رہے۔"
جنگ کے خاتمے کے بعد جب تاشقند معاہدہ ہوا تو دونوں ممالک میں طے پایا کہ بھارت، پاکستان میں محصور شہریوں کی بہ حفاظت واپسی کے لیے ایک نیا راستہ کھولا جائے۔
مہر انساء نقوی کہتی ہیں کہ "میں جب یہاں آ رہی تھی تو مجھے لگا کہ میں تو بھارت آتی رہوں گی مجھے اپنی نانی کی بہن سے بہت لگاؤ تھا انہیں ہم سب بوبو کہتے تھے میرا خیال تھا کہ بوبو سے ملنے تو میں کبھی بھی آجایا کروں گی۔ لیکن مجھے اندازہ نہ تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔"
اُن کے بقول "1969 میں بوبو کا انتقال ہوا تو مجھے بہت صدمہ لگا میں تب میٹرک میں پڑھتی تھی۔ پھر اس کے بعد بہت سے قریبی رشتوں کی وفات کی اطلاعات خط سے موصول ہوتی گئیں اور دل ٹوٹتا گیا۔ لیکن میں آج تک کبھی وہاں نہ جاسکی جہاں پیدا ہوئی اپنا بچپن گزارا۔ اب فون، انٹر نیٹ کی سہولت ہے تو اپنے رشتے داروں کزنز اور ان کے بچوں سے ویڈیو کال پر بات ہوجاتی ہے۔ ورنہ ایک ایسا بھی وقت تھا کہ خطوط بھی آنے اور جانے پر پابندی تھی۔"
'پاکستانی شہریت کے لیے درخواستیں دے دے کر تھک چکے ہیں'
ملیر کی رہائشی عائشہ چار بچوں کی ماں ہیں وہ 20 برس کی تھیں جب ان کی شادی رشتے داروں میں ہوئی۔ یوں وہ بھارت سے بیاہ کر پاکستان آگئیں۔ آج ان کی شادی کو 16 برس ہوچکے ہیں لیکن وہ پاکستان کی شہری نہ بن سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "ہر سال پاسپورٹ کی تجدید کے لیے مجھے اپنے شوہر کے ہمراہ اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔ وہ ہر سال دفتر سے چھٹی لیتے ہیں اور ہم بے شمار دستاویزات کا پلندہ اٹھائے بھارتی سفارت خانے پہنچ جاتے ہیں۔ ہم پاکستانی شہریت کے لیے درخواستیں دے دے کر تھک چکے ہیں لیکن نہ شہریت ملتی ہے نہ یہ تسلی کے اب سکون کے چند لمحے نصیب ہوں۔"
وائس آف امریکہ سے نا م نہ بتانے کے شرط پر ایک ذرائع نے بتایا کہ اس وقت سفارت خانے میں سلمی اور عائشہ جیسے سینکڑوں کیسز کا انبار ہے ۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان جاری تناؤ اور بدلتے حالات کے پیشِ نظر ہر بھارتی شہری کو پاکستانی شہریت ملنا اور ویزا جاری کردینا اب اتنا آسان نہیں۔
ستر، اسی یہاں تک کے نوے کی دہائی میں جو لڑکیاں شادی ہوکر بھارت سے پاکستان آئیں انہیں ایک سال کے اندر اندر شہریت بھی ملی اور ویزا کی سہولت بھی لیکن اب حالات ویسے نہیں۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بھارت کا بھی ہے جس طرح یہاں کی حکومت اور ایجنسیاں سوچ بچار کر تی ہیں وہاں بھی ایسے ہی حالات ہیں۔
فردوس علی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ انہیں شادی کے ایک سال میں ہی پاکستانی شہریت مل گئی تھی۔ وہ ان دنوں کو یاد کرتی ہیں جب بھارتی سفارت خانہ کراچی میں ہوتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ "مجھے یاد ہے کہ ایک بار میری نانی شدید علیل تھی تو میں، میری خالہ اور ایک کزن نے صبح نو بجے ویزا اپلائی کیا، جو ضروری دستاویزات لگانے کے وہ فارم کے ساتھ لگائے۔ تین بجے ہمیں کال آئی ہمیں ویزا ملا اور ہم اسی روز رات آٹھ بجے کی فلائٹ سے دہلی روانہ ہوگئے۔"
پینسٹھ سالہ ریٹائرڈ اسکول پرنسپل نسیم حمزہ کے مطابق بھارت سے پاکستان بیاہ کر آنے والی لڑکیوں کو تو پھر شہریت مل جاتی ہے لیکن اگر کوئی یہاں کی لڑکی وہاں جائے اسے بھارتی شہریت نہیں ملتی۔ وہ بھلے مر جائے لیکن وہ کہلائے گی پاکستانی۔
وہ کہتی ہیں کہ " ہم نے اپنی بہن بھائی کی محبتوں میں کہ اچھے رشتوں کی آج کل کمی ہے تو اپنے خاندان کی بچیوں کی بھارت میں شادیاں کی لیکن ان لڑکیوں کی شادیوں کو دو سے تین دہائیاں گزر گئیں انہیں شہریت نہ ملی۔"
مہر انساء کے مطابق، "تقسیم تو حکم رب تھی اسے ہم چاہ کر بھی نہیں روک سکتے تھے۔ خاندان بڑھ جائیں تو گھروں میں دیواریں اٹھ جاتی ہیں یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ لیکن یہ کہنا کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں، چین کے دوست ہیں جاپان سے تعلق اچھا ہے لیکن جو پڑوس میں ہے وہ ہمارا دشمن ہے یہ بات ٹھیک نہیں یہاں دونوں ممالک کے درمیان اتنی رکاوٹیں، اتنی انا ہے کہ ہم اگر کوشش بھی کرلیں تو ہم کبھی نہیں جاسکیں گے۔"
دونوں ممالک کے درمیان جاری سیاسی کشیدگی کے اتار چڑھاو اپنی جگہ۔ لیکن اس کے باوجود اب بھی بہت سے خاندان جو آدھے وہاں اور یہاں ہیں ایک دوسرے سے نہ صرف ملنے کے لیے ترستے ہیں بلکہ نئے رشتے بنانے کے خواب آج بھی بنتے دکھائی دیتے ہیں۔
کوئی اپنا آبائی گھر اور محلے میں لگے پیپل کے پیڑ تلے گزرے بچپن کویاد کرتا ہے تو کسی کو آج بھی چاندنی چوک کے پراٹھے والی گلی کی مہک اور وہاں کے لذیز دہی بھلے کھانے کی خواہش ہے۔
سرحد کے اس پار بسنے والوں کو لاہور میں امرتسر اور کراچی میں ممبئی نظر آتا ہے۔ تو یہاں والوں کے آج بھی دل میں یہ تمنا ضرور جاگتی ہے کہ وہ زندگی میں ایک بار لازوال محبت کی نشانی تاج محل کا دیدار کرلیں۔
ان خواہشات، تمناوں اور آرزوں کے درمیان اب بھی بہت سی خواتین صرف اتنا چاہتی ہیں کہ وہ بھی اپنوں کی خوشی اور غم میں شریک ہوسکیں۔ جو دنیا میں نہیں رہے ان کو نہ سہی ان کی آخری آرام گاہ کو دیکھ سکیں۔