پاکستان کی ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیموں نے سپریم کورٹ کی جانب سے نفرت انگیز مواد کی بنا پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ممکنہ بندش پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کے کسی اقدام سے ڈیجیٹل پاکستان کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔
حکومتی رہنماؤں کا بھی کہنا ہے کہ یوٹیوب پر پابندی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ نے بدھ کو مذہبی انتہا پسندی کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران یوٹیوب پر پابندی کا عندیہ دیا تھا۔
عدالت نے قرار دیا تھا کہ یوٹیوب پر عدلیہ، فوج اور حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسایا جاتا ہے اور حکومتی اداروں سے استفسار کیا کہ نفرت انگیز مواد پر وہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے کیا اقدامات کررہے ہیں۔
یوٹیوب تفریح ہی نہیں شخصی آزادی کا مسئلہ ہے!
ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیموں نے یوٹیوب پر ممکنہ پابندی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے شخصی و آزادی اظہار رائے کے منافی قرار دیا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنی والی تنظیم، 'بولو بھی' کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے یوٹیوب کو بند کرنے کے ریمارکس پر ڈیجیٹل اور آئی ٹی کی صنعت سے وابستہ افراد میں تشویش پائی جاتی ہے، جس کا اظہار عوامی سطح پر دیکھا جاسکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، بلکہ اس سے قبل تین سال سے زائد عرصے تک یوٹیوب پر ملک میں پابندی تھی۔ تاہم، ان کے بقول، اس کا نقصان پاکستان کو ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یوٹیوب صرف تفریح ہی نہیں معلومات کا بہت بڑا ذریعہ ہے جسے بند کرنا شہری و شخصی آزادیوں اور اظہار رائے پر پابندی کے مترادف ہوگا۔
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے سربراہ، اسد بیگ کا کہنا ہے کہ دنیا کی معیشت اب ڈیجیٹل معیشت کے ساتھ منسلک ہوچکی ہے اور پاکستان کی معیشت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی جیسے کسی اقدام کا متحمل نہیں ہوسکتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ ڈیجیٹل دنیا کا دور ہے جس میں کوئی ملک ڈیجیٹل معیشت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔
انہوں نے اپنی بات کی مثال سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب امریکہ چین کو نقصان پہچانا چاہتا ہے تو وہ ہواوے پر پابندی لگا دیتا ہے اور اگر موبائل کمپنی پر پابندی سے چینی معیشت پر اثر نہ پڑتا تو امریکہ یہ اقدام کیون اٹھاتا۔
وزیر اعظم کے ڈیجیٹل میڈیا کے فوکل پرسن، ڈاکٹر ارسلان خالد کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے یوٹیوب پر پابندی نہیں بلکہ برقی جرائم کی روک تھام کے قانون (پی ای سی اے) 2016 کے تحت نفرت انگیز مواد کو ریگولیٹ کرنے کا کہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ای سی اے 2016 ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کیا گیا قانون ہے جس کا مقصد انٹرنیٹ پر نفرت انگیز مواد کی روک تھام ہے۔
انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ یہ حق رکھتی ہے کہ حکومتی اداروں سے موجودہ قانون پر عملدرآمد کے بارے میں دریافت کرے یا اس پر عملدرآمد سے متعلق حکم دے۔
مقامی قوانین کی پاسداری کے لئے یوٹیوب سے بات کررہے ہیں!
اسد بیگ نے کہا کہ حکومتی اداروں کو اندازہ نہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی سے کس قدر نقصان ہورہا ہے اور بیرونی دنیا کو ملک کا تاثر کیا جارہا ہے؟
ان کے بقول، حکومت کو سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ساتھ کاروباری سفارتکاری کے انداز میں بات چیت کرنی چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ آپ کی بات فوری نہیں مانتے تو اس کا ردعمل یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس پر پابندی لگا دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کمیونٹی گائیڈلائن کا انتخاب فراہم کرتے ہیں، جس کے ذریعے ہر شخص اپنے لئے ناپسندیدہ مواد کو روک سکتا ہے۔
وزیر اعظم کے فوکل پرسن، ڈاکٹر ارسلان خالد نے کہا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد سے متعلق قانون 2016 میں منظور ہوا تھا۔ تاہم، اس کے قواعد نہیں بن سکے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت اس قانون پر عملدرآمد کے لئے قواعد پر کام کررہی ہے اور اس سلسلے میں بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر بات چیت چل رہی ہے، تاکہ یہ قوائد انہیں قبول ہوں اور مقامی قوانین کی پاسداری بھی ہوسکے۔
سوشل میڈیا کا حال پاکستانی میڈیا جیسا ہوجائے گا!
ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ فریحہ عزیز نے کہا ہے کہ لگتا ہے ہم نے ماضی کے اپنے اقدامات سے کچھ نہیں سیکھا؛ اور دس سال سے حکومت کا ایک ہی بیانیہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہماری بات نہیں مانیں گے تو ہم انہیں بند کردیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کسی چیز کو بند کر دینا حل نہیں ہے اور نہ ہی آج کے دور میں انٹرنیٹ پر دستیاب کسی پروگرام کو مکمل بند کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان اور بعض وفاقی وزرا یوٹیوب پر پابندی کی مخالفت کررہے ہیں۔ لیکن یہی رہنما بیگو، پب جی اور ٹک ٹاک پر پابندی کے حامی دیکھائی دیتے ہیں۔
فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ ایسی صورت میں جب سرمایہ کار کو تحفظ نہیں کہ اس پر کب حکومت یا عدالت کی جانب سے پابندی لگائی جاسکتی ہے، ڈیجیٹل پاکستان کیسے آگے بڑھے گا۔
انہوں نے کہا کہ برقی جرائم کی روک تھام کا قانون قابل عمل نہیں اور اگر اس پر عملدرآمد کروایا جائے گا، تو اس کے مطابق ہر چیز نفرت انگیز مواد میں آجائے گی اور سوشل میڈیا کا حال بھی آج کے ہمارے میڈیا جیسا ہی ہوجائے گا۔
خیال رہے کہ صحافت پر قدغنوں اور ذرائع ابلاغ کی آزادیوں کو محدود کرنے پر پاکستانی صحافی سوشل میڈیا کو اظہار رائے کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور یوٹیوب چینل بہت سے صحافیوں کی آمدن کا ذریعہ بھی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں سوشل میڈیا کا کردار اہم رہا ہے۔ تاہم، ٹیلی مواصلات کے نگران ادارے پی ٹی اے نے رواں ماہ کے دوران پب جی جیسی گیمز کے ساتھ ساتھ بیگو لائیو اور ٹک ٹاک جیسی مقبول چینی سوشل میڈیا ایپس پر پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے بھی کیے ہیں۔
پی ٹی اے کے مطابق، ٹک ٹاک نے پاکستان کی حکومت کے کہنے پر غیر مناسب مواد کو ہٹا دیا ہے اور مستقبل میں بھی ادارے کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات پر ایکشن لیا جائے گا۔
حکومتی رہنما یوٹیوب پر پابندی کے خلاف!
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے اس پابندی کے متعلق کہا کہ عدالتوں اور پی ٹی اے کو پابندیوں کے ذریعے اخلاقی اقدار کا پہرے دار بننے سے دور رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ ایپس پر اس طرح کی پابندیاں پاکستان کی ٹیکنالوجی کی صنعت اور اس کی ڈیولپمنٹ کو مستقل نقصان پہنچائیں گی۔ ابھی تو ہم مشکلات سے نکلے ہی نہیں ہیں اور اس کی وجہ ججوں کے غلط مشوروں کی بنیاد پر معاشی امور میں دخل اندازی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدروس نے بھی کہا ہے کہ یوٹیوب کی بندش مسئلے کا حل نہیں ہے۔
اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر تانیہ نے لکھا کہ پاکستان میں تین برس یوٹیوب پر پابندی تھی جس نے مقامی سطح پر مواد تیار کرنے والے ایکو سسٹم کو بھی محدود رکھا۔