افغانستان میں بارش سے آنے والے سیلاب سے گزشتہ تین دن کے دوران 31 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ متعدد افراد لاپتاہیں جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ منہدم ہونے والے گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی وزارتِ قدرتی آفات کے ترجمان شفیع اللہ رحیمی نے بتایا ہے کہ شدید بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب اور دیگر حادثات میں 31 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے اتوار کو ایک بیان میں بتایا کہ مختلف حادثات میں 74 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جب کہ 41 افراد لاپتا ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔
سیلاب سے دارالحکومت کابل کے ساتھ ساتھ صوبہ میدان وردک اور غزنی متاثر ہوئے ہیں۔
شفیع اللہ رحیمی نے مزید کہا کہ زیادہ تر اموات مغربی کابل اور صوبہ میدان وردک میں ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب میں 250 کے قریب مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔
رحیمی نے یہ بھی کہا کہ سیلاب نے پہلے سے مشکلات کے شکار افغانستان کے لیے مزید مصائب کو جنم دیاہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ سیلاب کابل کے مغرب میں صوبہ میدان وردک کے ضلع جلریز میں آیا جس میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ کم از کم 40 لاپتا افراد کی تلاش میں امدادی ٹیمیں سرگرداں ہیں جب کہ ان کے بچاؤ کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
صوبائی گورنر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ سینکڑوں گھروں کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا وہ تباہ ہو گئے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ لاپتا افراد منہدم ہونے والے مکانات کے ملبے تلے دبے ہیں۔
اپریل میں، اقوامِ متحدہ کے انسانی امور کےدفتر نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ملک کو مسلسل تیسرے سال خشک سالی کا سامنا ہے۔ طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد اس کا دوسرا سال شدید اقتصادی مشکلات کا سال رہا ہے جس کی بڑی وجوہات کئی دہائیوں کی جنگ اور قدرتی آفات ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ سیکڑوں مربع میل زرعی اراضی تباہ ہو گئی ہے جب کہ کابل اور وسطی بامیان صوبے کے درمیان شاہراہ سیلاب کی وجہ سے بند ہے۔
افغانستان کو بارش اور سیلاب کی صورت میں نئی آفت کا ایک ایسے وقت میں سامنا ہے جب رواں ماہ کے شروع میں اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا تھا کہ افغانستان کو خوف ناک صورتِ حال کا سامناہے کیوں کہ ہر 10 افغان خاندانوں میں سے 9 مناسب خوراک کے فقدان کا شکار ہیں جب کہ بچے اور حاملہ خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو اسکائپ پر دیے گئے ایک انٹر ویو میں پروگرام کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور چیف آپریٹنگ افسر کارل سکائیو نے کہا تھا کہ افغانستان کی اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے دنیاکے سب سے بڑے انسانی ہمدردی کے ادارے کو ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی جب کہ ہم اب تک صرف اس رقم کا لگ بھگ 10 فی صد جمع کر سکے ہیں۔
سکائیو نے بتایا کہ انہوں نے کابل اور صوبہ پروان کا دورہ کیا اور شہری اور دیہی دونوں علاقوں کا جائزہ لیا جس سے اندازہ ہوا کہ وہاں صورتِ حال مسلسل مایوس کن ہے ۔
انہوں نے کہا کہ وہ افغان لوگوں کی ہمت اور آگے بڑھنے کے ان کے عزم اور جذبےسے متاثر ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔