رسائی کے لنکس

نائجیریا: بازار میں بم دھماکہ، درجنوں افراد ہلاک


حکام کے مطابق دھماکہ اداماوا کے دارالحکومت یولا کے مرکزی بازار میں جمعرات کی شب ہوا۔ دھماکے کے وقت بازار میں خریداروں کا ہجوم تھا۔

نائجیریا کی شمال مشرقی ریاست اداماوا کے ایک مصروف بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

حکام کے مطابق دھماکہ اداماوا کے دارالحکومت یولا کے مرکزی بازار میں جمعرات کی شب ہوا۔ دھماکے کے وقت بازار میں خریداروں کا ہجوم تھا۔

نائجیریا میں ہنگامی حالات سے نبٹنے کے مرکزی ادارے کے عہدیدار سعد بیلو نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ دھماکے کےنتیجے میں کم از کم 31 افراد ہلاک اور 38 زخمی ہوئے ہیں جنہیں شہر کے مختلف اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔

تاحال دھماکے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے لیکن اداماوا میں شدت پسند تنظیم بوکو حرام خاصی سرگرم ہے اور ماضی میں عوامی مقامات پر اس نوعیت کے بم حملوں میں ملوث رہی ہے۔

نائجیریا کے نو منتخب صدر محمد بخاری کی جانب سے بوکو حرام کے خلاف جاری فوجی کارروائیوں کی مرکزی کمان کا دفتر دارالحکومت ابوجا سے شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثر شمال مشرقی شہر میڈوگوری منتقل کرنے کے اعلان کے بعد شدت پسندوں کے حملوں میں تیزی آگئی ہے۔

محمد بخاری نے گزشتہ ہفتے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے اور ان کی حلف برداری کے بعد سے ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں ہونے والے بوکو حرام کے حملوں میں اب تک درجنوں افراد مارے جاچکے ہیں۔

بوکو حرام کی تحریک کا آغاز 2009ء میں میڈو گوری کے نواحی علاقے سے ہوا تھا جو نائجیریا کے مسلم اکثریتی شمال مشرقی علاقے کا سب سے بڑا شہر ہے۔

بیس لاکھ آبادی کا یہ شہر ریاست بورنو کا دارالحکومت بھی ہے جسے بوکو حرام کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ میڈوگوری میں وہ لاکھوں افراد بھی پناہ گزین ہیں جنہوں نے بوکو حرام کے حملوں کے باعث بورنو کے سرحدی علاقوں سےاس شہر کی جانب ہجرت کی ہے۔

بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چھ سال سے جاری شدت پسندی کی لہر کے باعث نائجیریا کے شمال مشرقی علاقوں کے 15 لاکھ سے زائد باشندوں کو بے گھر ہونا پڑا ہے۔

بوکو حرام کی کارروائیوں میں اب تک 17 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جب کہ تنظیم کے جنگجو نائجیریا کے پڑوسی ملکوں نائیجر، چاڈ اور کیمرون کے سرحدی علاقوں میں بھی حملے کرتے رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' کی ایک تحقیق کے مطابق بوکو حرام کے خلاف 2009ء سے جاری نائجیرین فوج کی جوابی کارروائیوں کے دوران 1200 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ تشدد، بھوک اور جیلوں میں سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث فوج اور پولیس کے زیرِ حراست ہلاک ہونے والے مشتبہ افراد کی تعداد سات ہزار سے زائد ہے۔

'ایمنسٹی' نے صدر محمد بخاری کی نئی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ نائجیرین سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں اتنے بڑے پیمانے پر ماورائے قانون ہلاکتوں کی تحقیقات کرائے۔

XS
SM
MD
LG