رسائی کے لنکس

'یہ کیسے آزاد شہری ہیں جنہیں وکیل سے ملنے کی اجازت نہیں'


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو وکیل سے ملاقات کی اجازت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اُن کی نقل و حرکت سے متعلق فیصلے کا اختیار انتظامیہ کے پاس ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نقل و حرکت پر پابندی سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ تاہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کمرہ عدالت تک آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جس پر اُن کے وکیل نے اعتراض اُٹھا دیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کے وکلا نے کہا کہ یہ کیسے آزاد شہری ہیں کہ حکومت کی اجازت کے بغیر ڈاکٹر قدیر کو وکلا سے ملنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو 2004 میں مبینہ طور پر ایٹمی سازوسامان کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام پر اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے حکم پر ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سیکیورٹی کے باعث عام افراد کے داخلی گیٹ کے بجائے ججز گیٹ سے سپریم کورٹ میں لایا گیا۔ لیکن سماعت کے دوران وہ رجسٹرار آفس میں موجود رہے۔

سماعت شروع ہوئی تو جسٹس مشیر عالم نے وکیل توفیق آصف سے استفسار کیا کہ کیس کے متعلق ڈاکٹر قدیر سے ہدایات لے لی ہیں؟ جس پر توفیق آصف نے کہا کہ انہیں ابھی تک اپنے موکل تک رسائی نہیں دی جا رہی۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وکیل صاحب کی کچھ دیر میں ڈاکٹر عبد القدیر خان سے ملاقات کرا دیتے ہیں۔

پاکستان کے جوہری پروگرام پر امریکہ کی تشویش
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:50 0:00

اس پر وکیل توفیق آصف نے کہا کہ حکومت کی اجازت کے بغیر ڈاکٹر عبد القدیر کو وکیل سے ملنے کی بھی اجازت نہیں، یہ کیسے آزاد شہری ہیں؟

اس پر عدالت نے وکیل توفیق آصف کی ڈاکٹر عبد القدیر خان سے ملاقات کے لیے وقت دے دیا اور سماعت میں وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر کے وکیل توفیق آصف اپنے موکل سے ملاقات پر بھی مطمئن نہ ہوئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہماری ملاقات صرف سلام دعا کی حد تک ہی محدود رہی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کے وکیل نے کہا کہ اُن کی ایسی جگہ پر ملاقات کرائی گئی جہاں اور لوگ بھی موجود تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے احکامات کے مطابق ملاقات کرائی گئی ہے، اس پر توفیق آصف نے کہا کہ ہم نے ملاقات کی ہے لیکن ہدایات کے بغیر واپس آئے ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ہم نے کل کا حکم اس لیے دیا تاکہ ڈاکٹر عبد القدیر کو بہتر طریقے سے درخواست واپس لینے کا موقع دیں۔ درخواست غلط فورم پر دائر کی گئی ہے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ ڈاکٹر عبد القدیر کے وکلا کو تنہائی میں ملنے اور ہدایات لینے کا موقع دیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کے وکیل نے کہا کہ آج سپریم کورٹ میں بھی ایسے رسائی دی گئی ہے جیسے گوانتاناموبے میں سماعت ہو رہی ہو۔

کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔

گزشتہ روز عدالت نے اٹارنی جنرل کی طرف سے اس کیس کی ان کیمرہ سماعت کی استدعا مسترد کردی تھی۔ عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر سے بم بنانے کا فارمولہ نہیں پوچھنا۔ قوم کے ہیرو کا تمسخر نہ بنائیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر نظر بند کیوں ہیں؟

ڈاکٹر عبدالقدیر کی جانب سے ایٹمی سازو سامان کی دوسرے ملکوں کو فروخت کرنے کے اعتراف پر جنرل پرویز مشرف نے اُنہیں صدارتی معافی دے دی تھی۔ لیکن اُن کی نقل و حمل پر پابندی عائد کرتے ہوئے اُنہیں صرف گھر تک محدود کر دیا تھا۔

پاکستان میں بعض تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر سے زبردستی اعتراف جرم کرا کر قربانی کا بکرا بنایا گیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر عرصہ دراز سے اپنی رہائش گاہ پر ہی موجود ہیں اور انہیں محدود ملاقاتوں کی اجازت دی گئی ہے۔

جنرل پرویز مشرف اور ڈاکٹر عبدالقدیر (فائل فوٹو)
جنرل پرویز مشرف اور ڈاکٹر عبدالقدیر (فائل فوٹو)

ڈاکٹر عبدالقدیر نے 2009 میں ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ ان کی نقل و حرکت پر پابندی ختم کی جائے۔ اس پر حکومت اور ڈاکٹر عبدالقدیر کے درمیان بات چیت ہوئی جس سے عدالت کو بھی آگاہ کیا گیا اور ڈاکٹر قدیر کو محدود نقل وحرکت کی اجازت دے دی گئی۔

لیکن گزشتہ سال انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کی کہ انہیں آزادانہ طور پر تعلمی اداروں میں جانے اور دوستوں، صحافیوں اور دیگر افراد سے میل ملاقات کی اجازت دی جائے۔

لیکن عدالت نے یہ کہہ کر درخواست رد کر دی کہ ان کی سیکیورٹی کے معاملات دیکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لہذٰا یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔

ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ڈاکٹر قدیر نے گزشتہ سال 23 دسمبر کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

پاکستان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایک ہیرو کی حیثیت دی جاتی ہے اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے سلسلہ میں ڈاکٹر قدیر کو ہی معمار سمجھا جاتا ہے۔

ان پر ایٹمی سازوسامان سے متعلق اسمگلنگ کے الزامات کے باوجود عوامی سطح پر اُنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG