رسائی کے لنکس

'امی کی خوشی کا پیچھا کرتی یہاں تک پہنچ گئی'


Dr Seher Abbas with mother
Dr Seher Abbas with mother

’’میری والدہ کی گیارہ ہزار کی نوکری میں یا میں تعلیم حاصل کر سکتی تھی یا پیٹ بھر کھانا کھا سکتی تھی،۔۔میں نے اپنے لئے تعلیم کو چنا۔ میری امی ہر سیمسٹر ایک کلوخشک دودھ بھجوا دیا کرتی تھیں اور میں روزانہ ڈبل روٹی کے سلائس اس میں بھگو کر کھایا کرتی تھی‘‘۔ پیشہ ورانہ نیٹ ورکنگ اور ملازمتیں تلاش کرنے کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ڈاکٹرسحرعباس کی یہ پوسٹ پڑھ کر پڑھنے والوں کی آنکھیں ڈبڈبا جائیں۔

مکمل پوسٹ پڑھ کر ان سے کسی تعلق کے بغیر ان کی کامیابی پر دل خوش ہوئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ یہ 'ہیپی اینڈنگ' والی ایک ایسی فلم لگتی ہے جس میں ہر موڑ پر ایک نئی مشکل انتظار کر رہی ہو، ٹریجڈی بھی ہے، آنسو بھی ہیں اور اس کا ہیرو ہے ایک ماں کی ایسی بیٹی جس کے پاس خوراک کی تو کمی ہے لیکن ہمت اورعزم کا خزانہ موجود ہے۔

ڈاکٹر سحرعباس آج جرمنی کے دارالحکومت برلن میں نیوروسائنٹسٹ ہیں اور فارماسوٹیکل کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ انسانوں میں اندھے پن کے موضوع پر تحقیق پر اعزاز کےساتھ ڈاکٹریٹ حاصل کی ہے۔مگر ان کے لیے 'یہ سفر آسان نہیں تھا۔ سحر کو بڑے ہوتے ہوئے ہمیشہ یہ احساس تھا کہ وہ اپنی والدہ کی ذمہ داری ہیں جنہوں نے دوسری شادی کرنے کے بجائے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کوترجیح دی۔

سحر عباس بتاتی ہیں، ’’میری والدہ یہ جانتی تھیں کہ جس طرح بھی وہ اپنے بچوں کو پال رہی ہیں وہ ان کی تعلیم کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا۔ اس لیے انہیں تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ ان کے بقول دوسری طرف انہیں خود کم عمری میں یہ اندازہ نہیں تھا کہ تعلیم کس قدر ضروری ہے مگر تعلیمی کامیابیوں پر خوشی انہیں مزید محنت کرنے پر اکساتی تھی۔

’’میں ہمیشہ دیکھتی تھی میری ماں اداس رہتی ہیں، پھر ایک کلاس میں میری پہلی پوزیشن آئی تو ہمارے گھر چھوٹی سی تقریب ہوئی۔ گھر میں اچھا کھانا پکا۔ رشتےداروں نے امی کو مبارکباد دی تو میں نے اپنی والدہ کے چہرے پر خوشی دیکھی، بس اسی خوشی کا پیچھا کرتے میں یہاں تک پہنچ گئی ہوں‘‘۔

ڈاکٹر سحر عباس ، پی ایچ ڈی حاصل کرنے کی تقریب کے بعد اپنے اساتذہ کے ساتھ
ڈاکٹر سحر عباس ، پی ایچ ڈی حاصل کرنے کی تقریب کے بعد اپنے اساتذہ کے ساتھ

دوسری طرف ماں کے لیے بھی بیٹی کو پڑھانا کوئی آسان نہیں تھا۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سحر کی والدہ کا کہنا تھا کہ لوگوں نے تو بہت باتیں کیں لیکن دوسروں کے رائے اور مشوروں پر عمل کرکے کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی مشکل کے وقت ان کی تعلیم اور محنت ہی ان کے کام آئی تھی تو ان کی بس یہی خواہش تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو اپنے پیروں پر کھڑا اور اونچے مقام پر دیکھیں۔

سحر کی لنکڈ-ان پوسٹ اس واقعے سے شروع ہوتی ہے جس نے بقول ان کے ان کی زندگی تبدیل کر دی۔ اس کی تفصیل وائس آف امریکہ پر شئیر کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں نیشنل ٹیسٹنگ سروسز کی 'نیڈ بیسڈ اسکالرشپ' پر تعلیم حاصل کر رہی تھیں جہاں ان کے تعلیمی اور ہاسٹل کے اخراجات تو فراہم کیے جا رہے تھے مگر ان کے بقول اکثر اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ کچھ بچے کھانے کے اخراجات اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ سحر کہتی ہیں ان دنوں وہ صرف صبح کا کھانا افورڈ کر سکتی تھیں اور صبح اس لیے کھاتی تھیں کہ اس کے بعد پڑھائی کرنا قدرے آسان ہو جاتا تھا۔

’’اس شام میری روم میٹ نے کہا کہ اسے بھوک نہیں ہے کیونکہ شاید اس نے پہلے کچھ کھا لیا تھا۔ جب میں نے یہ سنا تو میں نے سوچا اس کا کھانا تو( میس میں) ضائع ہوجائے گا تو میں نے اس کے نام سے وہ کھانا لے کر کھا لیا‘‘۔ سحر بتاتی ہیں کہ بعد میں روم میٹ کمرے میں آئی اور کہا کہ اس کا کھانا کوئی لے گیا ہے۔

’’ میں اس وقت اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور میرا دل چاہا کہ میں اس لمحے کہیں غائب ہوجاؤں۔ مجھے بہت شرمندگی تھی اور اس لمحے میں نے خود سے وہ سوال کیے جن سے میں اب تک بچ رہی تھی‘‘۔

ڈاکٹر سحر کی لنکڈ ان پوسٹ
ڈاکٹر سحر کی لنکڈ ان پوسٹ

سحر نے بتایا کہ انہوں نے کسی اور کی طرف دیکھنے کی بجائے خود سے یہ سوال کیا کہ وہ اپنے پیروں پر کیسے کھڑی ہو سکتی ہیں اور وہ کیسے اپنی روم میٹ کے پیسے لوٹا سکتی ہیں۔

ایک ایسی کہانی جس کے ساتھ تکلیف اور شرمندگی جڑی ہو، اسے بیان کر کے اپنا دل کا احوال سب کے سامنے کھول کے رکھ دینا آسان تو نہیں ہوگا؟ کیسے کیا یہ سب کچھ ؟ اس سوال کے جواب میں سحر کہتی ہیں کہ معاشرے میں بڑے ہوتے ہوئے انہوں نے خود کو ہمیشہ دوسرے درجے کا شہری سمجھا۔ ایک ایسی صورت حال کی وجہ سے جس کا وہ حصہ تو تھیں مگر قصوروار نہیں۔

سحرعباس کا کہنا ہے کہ ان جیسے بہت سے بچوں کو جو کسی صورت حال یا جذباتی صدمے کا شکار ہوتے ہیں، معاشرے کی طرف سے گویا یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ انہیں خاموش رہنا چاہیے اور انہیں دوسروں کے مقابلے میں بیچارہ سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

’’اپنی کہانی سب سے سامنے بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ان جیسے دوسرے بچوں کو یہ پیغام جا سکے کہ اگر آپ کے حالات مختلف ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ اگر آپ تکلیف میں ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ اگر آپ کا معاشی پس منظر کمزور ہے تو یہ بھی کوئی برائی نہیں ہے‘‘۔

سحر کے بقول جب ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری ذات میں کوئی خرابی نہیں اور جس بھی مشکل سے ہم گزر رہے ہیں اسے چھپانے کی ضرورت نہیں تو ہمارے زخم مندمل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کا اپنی کہانی بیان کرنے کا مقصد معاشرے کو بھی یہ احساس دلانا ہے کہ مختلف حالات اور پس منظر کوئی برائی نہیں۔ اسے بھی ایسے بچوں، ایسے لوگوں کو قبولیت دینی چاہیئے۔

’’ بڑے ہوتے ہوئے مجھے غیروں سے زیادہ اپنوں کے سلوک نے ہی یہ احساس دلایا جیسے مجھ میں کوئی خرابی ہے۔ اب جب میں بڑی ہوچکی ہوں تو میں سوچتی ہوں کہ میرا بچپن تو اچھا تھا کیونکہ میری والدہ نے تنہا ہوتے ہوئے ہر وہ کام کیا جو میری لیے بہتر تھا یا مجھے خوشی دیتا‘‘۔

ڈاکٹر سحر عباس
ڈاکٹر سحر عباس

مالی تنگی، غذا کی کمی، بیچارگی کی نظروں سے دیکھا جانا اور معاشرے سے علیحدہ تصور کرائے جانے کے باوجود سحر اپنے آپ کو بہتر سےبہتر کرنے میں لگی رہیں۔ تعلیم کے لیے اسکالرشپس حاصل کیں، انگریزی اچھی نہیں تھی تو انگریزی تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے اردو میں تقریر لکھ کو دوستوں کی مدد سے اسے انگریزی میں لکھتیں۔

زبان پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ایک اور مقصد بھی جڑا ہوتا تھا۔ وہ نقد انعام جو بہترین تقریر پر دیا جاتا۔ اس انعام کی ضرورت شاید سحر سے زیادہ کسی کو نہ ہوتی اور وہ اپنی سخت محنت سے اسے حاصل بھی کر لیتیں۔

اعلیٰ تعلیم کا وقت آیا تو سحر نے اسکالرشپس کے اعلانات کا انتظار نہیں کیا۔ دن رات ایک کر کے دنیا بھر کی یونیورسٹیز میں ان یونیورسٹیز اور پروفیسرز کا ڈیٹا بیس بنایا جہاں پی ایچ ڈی کی پوزیشن موجود تھی، پانچ دس نہیں پانچ سو اپلیکیشنز بھیجیں، پروفیسرز کے ای میلز ڈھونڈ کر ان سے براہ راست رابطہ کیا اور نتیجے میں انہیں اپنی پسند کی سات جگہوں سے اسکالرشپ کی آفرز موصول ہوئیں جس میں انہوں نے جرمنی کی ڈی اے اے ڈی اسکالرشپ کا انتخاب کیا۔

جس دن اپنے مقالے کا دفاع کیا اسی دن یونیورسٹی کی روایات کے تحت ایک چھوٹی سی تقریب میں ان کے ساتھیوں کی طرف سے خصوصی طور پر تیار کردہ گریجوئیٹس کو پہنائی جانے والی 'مورٹر بورڈ ہیٹ' ان کے سر پر سجائی گئی۔

سحر آج برلن میں ملازمت کے ساتھ اپنے لنکڈ ان اکاؤنٹ اور اپنی ویب سائٹ کے ذریعے بہت سے ایسے طالب علوں کی راہنمائی کرتی ہیں جو ملک سے باہر تعلیم یا تعلیمی اسکالرشپس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہر ہفتے ہی اس سلسلے میں مفت ویبینارز بھی منعقد کرتی ہیں۔

اس سوال پر کہ جب آپ نے اپنا راستہ تنہا تلاش کیا تو اب دوسروں کی مدد کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ سحر نے وقت ضائع کیے بغیر جواب دیا کہ ’’ان بچوں کے لیے میں وہ بننا چاہ رہی ہوں جس کی مجھے اس وقت ضرورت تھی جب میں بڑی ہورہی تھی‘‘۔

سحرعباس آج تعلیمی اور پیشہ ورانہ طورپر کامیاب ہیں۔ اب ہر وہ چیز خرید سکتی ہیں جس کی انہیں خواہش ہو مگر وہ زیادہ خریداری نہیں کرتیں۔ کھانا بھی دو وقت ہی کھاتی ہیں مگر غذائیت سے بھرپور ہو اس کا خیال رکھتی ہیں۔ سحر نے اپنی مدد آپ کے تحت خود کو سنوارا اور تراشا ہے۔ لہجے میں سادگی، گفتگو میں گہرائی، ہر لفظ سوچ کر، تول کر بولا ، گویا ان کی شخصیت حالات کی بھٹی میں تپ کر تیار ہونے والا سونا ہے جس کی چمک ہر دیکھنے والے کو متاثر کرتی ہے۔

XS
SM
MD
LG