پاکستان کے محکمۂ موسمیات نے بلوچستان کے سات اضلاع اور کراچی سمیت ملک بھر کے کئی علاقوں کے لیے خشک سالی الرٹ جاری کردیا ہے۔
محکمۂ موسمیات اسلام آباد کے شعبۂ خشک سالی کے ڈائریکٹر اسلام الدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں عام طور پر بارشیں کم ہوتی ہیں لیکن رواں سال کے دوران ان میں مزید کمی ہوئی ہے۔
اسلام الدین کے مطابق رواں سال یکم مئی سے 31 اگست تک بلوچستان میں معمول سے 45.7 ملی میٹر کم بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے اضلاع دالبندین، گوادر، جیونی، پنجگور، پسنی، نو کنڈی، اورماڑہ، کوئٹہ اور تربت میں درمیانے درجے سے شدید نوعیت کی خشک سالی اس وقت جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آنے والے تین مہینوں میں بھی ان علاقوں میں معمول سے کم بارش ہوگی جس کی وجہ سے خشک سالی کی صورتِ حال بر قرار رہے گی اور خدشہ ہے کہ بعض علاقوں میں خشک سالی شدید صورت اختیار کر جائے۔
اسلام الدین نے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کے حکام اور رہائشیوں سے بھی اپیل کی کہ انسانوں اور جانوروں کے لیے دستیاب پانی کم سے کم استعمال میں لایا جائے تاکہ آنے والے دنوں میں مشکلات مزید نہ بڑھیں۔
بلوچستان کے لیے محکمۂ موسمیات نے رواں سال جون میں بھی خشک سالی کا الرٹ جاری کیا تھا اور اب صورتِ حال تبدیل نہ ہونے کے باعث دوسرا الرٹ جاری کیا گیا ہے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان چوہدری شبیر احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ خشک سالی کے مسئلے کے حل کے لیے صوبائی حکومت نے پہلے مرحلے میں پورے صوبے کے لیے ماہرین پر مشتمل واٹر ایمرجنسی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے سفارشات مرتب کر کے صوبائی حکومت کو پیش کرے گی۔
ترجمان نے بتایا کہ ان سفارشات کی روشنی میں حکومت مزید اقدامات کرے گی جب کہ اس کے ساتھ ساتھ فوری طور پر صوبے کے مختلف اضلاع میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لیے بھی فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں جن پر جلد کام شروع کردیا جائے گا۔
محکمۂ موسمیات کے حکام کے مطابق بین الاقوامی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب بڑے صوبے بلوچستان میں چند سا ل پہلے تک سالانہ 176 اور کوئٹہ سمیت شمالی اضلاع میں صرف 50 ملی میٹر بارش ہوتی تھی جس میں اب مزید کمی ہوتی جارہی ہے۔
بلوچستان کے اکثر اضلاع میں کم بارشوں کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔ صوبے کے شمالی اضلاع میں خشک اور تر میوہ جات کے علاوہ پھلوں کے باغات اور چراگاہیں ختم ہو رہی ہیں جب کہ مال داری اور زمین داری سے وابستہ دیہی علاقوں میں لوگ کی بڑی تعداد صوبائی دارالحکومت کو ئٹہ اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں آباد ہو رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا کہ صوبے میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے اگر جنگی بینادوں پر اقدامات نہیں کیے گئے تو کوئٹہ سمیت بیشتر اضلاع کے لوگ پانی نہ ہونے کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔