پاکستان الیکشن کمیشن نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد نے الیکشن کمیشن پر زور دیا تھا کہ مذکورہ مقدمے کو جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
الیکشن کمیشن 26 نومبر سے یومیہ بنیاد پر مقدمے کی سماعت کرے گا۔
الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کا مقدمہ 2014 سے زیر التوا ہے۔ اس مقدمے میں حکمراں جماعت پر غیر قانونی ذرائع سے فنڈنگ حاصل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمے کے فیصلے میں تاخیر پر رہبر کمیٹی کے اراکین بدھ کے روز احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس سے پیدل چل کر الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر پہنچے۔
ان رہنماؤں میں فرحت اللہ بابر، میاں افتخار حسین، احسن اقبال، نیئر بخاری، اکرم درانی، عثمان کاکڑ، سینیٹر طاہر بزنجو، میاں افتخار حسین اور ایاز صادق نمایاں تھے۔
اپوزیشن اراکین نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے ملاقات کی اور انہیں احتجاجی یادداشت پیش کی جس میں الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا کہ تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمے کو جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل اس مقدمے کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچائیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے خلاف اس مقدمے کو پانچ سال ہو چکے ہیں، لیکن تحقیقات مکمل نہیں ہو رہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ تحریک انصاف اس مقدمے کا سامنا کرنے کی بجائے اس میں تاخیری حربے اختیار کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان ملک کی تمام جماعتوں کو بدعنوان کہتے رہے ہیں اور آج پی ٹی آئی اس مقدمے کی راہ میں کیوں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان کی پانچ سالہ مدت پانچ دسمبر کو مکمل ہو رہی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق رائے نہ ہو سکنے کے باعث الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی تقرری پہلے سے التوا کا شکار ہے۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الیکشن کمیشن کے اراکین کے تقرر کے حوالے سے جاری تنازع کے باعث چیف الیکشن کمشنر کی مدت مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن غیر فعال ہوجائے گا۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن، کنور دلشاد کہتے ہیں کہ اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی اسکروٹنی کمیٹی اب روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی اور اپنی رپورٹ الیکشن کمیشن کو بجھوائے گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن، اسکروٹنی کمیٹی کی تحقیقات کی روشنی میں اس مقدمے کا فیصلہ سنائے گی اور ان کے مطابق اس بات کا قوی امکان پایا جاتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف کی غیر قانونی ذرائع سے فنڈنگ ثابت ہو جاتی ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ الیکشن کمیشن پولیٹکل پارٹیز ایکٹ کی شکل 212 کے تحت جماعت کو خلاف قانون قرار دے سکتا ہے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی میں اندرونی کرپشن اور غیر ملکی سیاسی فنڈنگ سے متعلق قوانین کے غلط استعمال پر پارٹی کے منحرف بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں الیکشن کمیشن میں غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق کیس دائر کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمے کے مدعی اور جماعت کے بانی رکن اکبر ایس بابر کہتے ہیں کہ حکمراں جماعت نے غیر ملکی فنڈنگ کے لئے غیر قانونی طریقہ کار اور منی لانڈرنگ کا سہارا لیا اور وہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس مقدمے کو جلد نمٹانے کے مطالبے کو خوش آئند سمجھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے دس اکتوبر کے فیصلے میں قرار دے چکا ہے کہ پی ٹی آئی نے اس مقدمے کی راہ میں تاخیری حربے اپنائے ہیں۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ چیف الیکشن کمشنر قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اس مقدمے کا جلد فیصلہ سنائیں گے۔
مقدمے کا پس منظر
تحریک انصاف کے منحرف بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں پارٹی کے خلاف غیر قانونی ذرائع سے غیر ملکی فنڈنگ کا کیس دائر کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پارٹی نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے تقریباً 30 لاکھ ڈالر اکٹھے کیے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے، 'ہنڈی' کے ذریعے پاکستان منگوائی گئی۔
مقدمے میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ بیرونِ ملک سے حاصل فنڈنگ کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔
تحریک انصاف کی جانب سے اس مقدمے کو سننے سے متعلق اعتراضات اور ہائی کورٹ میں چیلنج کئے جانے کے باعث یہ مقدمہ التوا کا شکار رہا۔
تحریک انصاف نے اکبر ایس بابر کی اس درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے روکا جائے۔ تاہم، ہائی کورٹ نے اسے واپس الیکشن کمیشن کو بجھوا دیا تھا۔
اپریل 2018 میں چیف الیکشن کمشنر نے ڈائریکٹر جنرل لاء کی سربراہی میں تین رکنی سکروٹنی کمیٹی کو تحریک انصاف کو ملنے والی غیر ملکی امداد سے متعلق معاملات کی تحقیقات کا کہا۔
تحریک انصاف نے اسکروٹنی کمیٹی پر اعتراض اٹھایا جسے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مسترد کر دیا اور اسکروٹنی کمیٹی کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے 10 اکتوبر کو اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ تحریک انصاف نے اس مقدمے میں غیر قانونی تاخیری حربوں کا سہارا لیا۔
10 اکتوبر کے اس فیصلے پر تحریک انصاف کے وکیل نے 23 اکتوبر کو اعتراض اٹھاتے ہوئے اسکروٹنی کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا تھا۔
تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے 10 اکتوبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور اسکروٹنی کمیٹی کی کارروائی روکنے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں 11 نومبر کو ایک اور درخواست دائر کر دی۔
عدالت نے تحریک انصاف کی درخواست پر حکم امتناع تو نہ دیا البتہ درخواست دائر کرنے کے اگلے روز 12 نومبر کو اسکروٹنی کمیٹی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے وکیل نے کمیٹی کو بتایا کہ جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی درخواست کا فیصلہ نہیں سناتا وہ اسکروٹنی کمیٹی کی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
اس درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں 20 نومبر کو سماعت ہوئی جس میں تحریک انصاف کے وکیل کی عدم موجودگی پر سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔
الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق، اسکروٹنی کمیٹی 26 نومبر سے اس مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے زیر التوا غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمے کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کی مدت مکمل ہونے سے پہلے آنے سے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کا تاثر سامنے آئے گا۔