واشنگٹن —
مصر کے الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ملک کے نئے آئین کی منظوری کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں دھاندلی کی شکایات کی تحقیقات کی جارہی ہیں جب کہ ریفرنڈم کے سرکاری نتائج کے اعلان کے لیے تاحال کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔
اس سے قبل ذرائع ابلاغ نے خبر دی تھی کہ دو حصوں میں ہونے والے ریفرنڈم کے حتمی نتیجے کا اعلان پیر کو متوقع ہے۔ ریفرنڈم کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق عوام کی اکثریت نے نئے آئین کی منظوری دیدی ہے جس کی ملک کے اسلام پسند حلقے حمایت کر رہے ہیں۔
پیر کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے مصر کے الیکشن کمیشن کے عہدیداران نے بتایا کہ ملک کے 27 صوبوں میں 15 اور 22 دسمبر کو ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کو مرتب کرنے کا کام تاحال جاری ہے جس کے باعث سرکاری نتائج کے اعلان میں تاخیر ہوسکتی ہے۔
اس سےقبل صدر محمد مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' نے اتوار کو دعویٰ کیا تھا کہ ریفرنڈم کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق رائے دہندگان میں سے 64 فی صد نے نئے آئین کے حق میں رائے دی ہے۔ اخوان کے مطابق ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کی شرح 32 فی صد رہی۔
ادھر حزبِ اختلاف کی لبرل جماعتوں کے اتحاد 'نیشنل سالوویشن فرنٹ' نے الیکشن کمیشن کے پاس ریفرنڈم میں مبینہ بےضابگیو ں کی شکایات درج کرائی ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عدلیہ کی موثر نگرانی نہ ہونے کے باعث اسلام پسندوں نے ریفرنڈم میں دھاندلی کی اور رائے دہندگان کو ڈرا دھمکا کر نئے آئین کے حق میں رائے دینے پر مجبور کیا۔
یاد رہے کہ مصر ی عدلیہ کے کئی ججوں نے صدر مرسی کی جانب سے عدالتی نظرِ ثانی سے بالاتر اختیارات سنبھالنے پر بطورِ احتجاج ریفرنڈم کے عمل کی نگرانی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
مجوزہ آئین تیار کرنے والی 100 رکنی اسمبلی میں 'اخوان المسلمون' اور اس کے اتحادی اسلام پسندوں کی اکثریت تھی جنہوں نے قبطی عیسائی نمائندوں اور لبرل اراکین کے واک آئوٹ کے بعد گزشتہ ماہ آئین کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
مصری حزبِ اختلاف کا موقف ہے کہ کہ نئے آئین کے ذریعے شہری آزادیوں کو سلب کیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس میں اسلامی اصولوں اور قوانین کو بالادست قرار دیا گیا ہے جب کہ خواتین کے حقوق سے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
اتوار کو حزبِ اختلاف کی لبرل اور سیکولر جماعتوں کے ارکان نے دارالحکومت قاہرہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مجوزہ آئین کی منظوری کے اعلان کے باوجود اس کے خلاف پرامن اور جمہوری جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔
اس کے برعکس مصر کے اسلام پسندوں نے ریفرنڈم کے انعقاد کو شفاف قرار دیتے ہوئے اسے ملک کی جمہوریت کی جانب پیش قدمی میں ایک اہم سنگِ میل گردانا ہے۔
نئے آئین کی منظوری کی صورت میں صدر مرسی کو دو ماہ میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے انتخابات کرانا ہوں گے۔
سیاسی مبصرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نئے آئین کے معاملے پر اسلام پسندوں اور لبرل حلقوں کی باہمی چپقلش عام انتخابات کے بعد معرضِ وجود میں آنے والی نئی اسمبلی میں بھی جاری رہے گی۔
اس سے قبل ذرائع ابلاغ نے خبر دی تھی کہ دو حصوں میں ہونے والے ریفرنڈم کے حتمی نتیجے کا اعلان پیر کو متوقع ہے۔ ریفرنڈم کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق عوام کی اکثریت نے نئے آئین کی منظوری دیدی ہے جس کی ملک کے اسلام پسند حلقے حمایت کر رہے ہیں۔
پیر کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے مصر کے الیکشن کمیشن کے عہدیداران نے بتایا کہ ملک کے 27 صوبوں میں 15 اور 22 دسمبر کو ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کو مرتب کرنے کا کام تاحال جاری ہے جس کے باعث سرکاری نتائج کے اعلان میں تاخیر ہوسکتی ہے۔
اس سےقبل صدر محمد مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' نے اتوار کو دعویٰ کیا تھا کہ ریفرنڈم کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق رائے دہندگان میں سے 64 فی صد نے نئے آئین کے حق میں رائے دی ہے۔ اخوان کے مطابق ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کی شرح 32 فی صد رہی۔
ادھر حزبِ اختلاف کی لبرل جماعتوں کے اتحاد 'نیشنل سالوویشن فرنٹ' نے الیکشن کمیشن کے پاس ریفرنڈم میں مبینہ بےضابگیو ں کی شکایات درج کرائی ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عدلیہ کی موثر نگرانی نہ ہونے کے باعث اسلام پسندوں نے ریفرنڈم میں دھاندلی کی اور رائے دہندگان کو ڈرا دھمکا کر نئے آئین کے حق میں رائے دینے پر مجبور کیا۔
یاد رہے کہ مصر ی عدلیہ کے کئی ججوں نے صدر مرسی کی جانب سے عدالتی نظرِ ثانی سے بالاتر اختیارات سنبھالنے پر بطورِ احتجاج ریفرنڈم کے عمل کی نگرانی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
مجوزہ آئین تیار کرنے والی 100 رکنی اسمبلی میں 'اخوان المسلمون' اور اس کے اتحادی اسلام پسندوں کی اکثریت تھی جنہوں نے قبطی عیسائی نمائندوں اور لبرل اراکین کے واک آئوٹ کے بعد گزشتہ ماہ آئین کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
مصری حزبِ اختلاف کا موقف ہے کہ کہ نئے آئین کے ذریعے شہری آزادیوں کو سلب کیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس میں اسلامی اصولوں اور قوانین کو بالادست قرار دیا گیا ہے جب کہ خواتین کے حقوق سے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
اتوار کو حزبِ اختلاف کی لبرل اور سیکولر جماعتوں کے ارکان نے دارالحکومت قاہرہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مجوزہ آئین کی منظوری کے اعلان کے باوجود اس کے خلاف پرامن اور جمہوری جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔
اس کے برعکس مصر کے اسلام پسندوں نے ریفرنڈم کے انعقاد کو شفاف قرار دیتے ہوئے اسے ملک کی جمہوریت کی جانب پیش قدمی میں ایک اہم سنگِ میل گردانا ہے۔
نئے آئین کی منظوری کی صورت میں صدر مرسی کو دو ماہ میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے انتخابات کرانا ہوں گے۔
سیاسی مبصرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نئے آئین کے معاملے پر اسلام پسندوں اور لبرل حلقوں کی باہمی چپقلش عام انتخابات کے بعد معرضِ وجود میں آنے والی نئی اسمبلی میں بھی جاری رہے گی۔